(آیت 1تا4) ➊ وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ …: ”طَرَقَ يَطْرُقُ“(ن) کا اصل معنی زور سے مارنا ہے جس سے آواز پیدا ہو۔ ”مِطْرَقَةٌ“(ہتھوڑا) اور”طَرِيْقٌ“(راستہ) اسی سے مشتق ہیں، کیونکہ راستے پر چلنے والوں کے قدم زور سے پڑتے ہیں تو آواز دیتے جاتے ہیں۔” الطَّارِقِ “ رات کو آنے والے کو کہتے ہیں، کیونکہ عام طور پر اسے دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ ” النَّجْمُ الثَّاقِبُ “ میں الف لام جنس کے لیے ہے، اس لیے اگرچہ لفظ واحد ہے مگر اس میں تمام ستارے آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو پیدا کرنے کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ شیطانوں سے آسمان دنیا کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ (دیکھیے صافات: ۶، ۷)” اِنْ “ نفی کے معنی میں ہے اور ” لَمَّا “ بمعنی ”إِلَّا“ ہے۔
➋ قسم کسی بات کی تاکید کے لیے اٹھائی جاتی ہے اور عموماً اس بات کی شہادت ہوتی ہے جس کے لیے قسم اٹھائی گئی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور چمک دار ستارے کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ہر جان کے اوپر ایک حفاظت کرنے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان اور ستاروں کا یہ عظیم الشان سلسلہ جو بغیر کسی سہارے کے قائم ہے اور جس میں کوئی خرابی یا حادثہ پیش نہیں آتا، اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ جس قادر مطلق نے ان کی حفاظت کا انتظام کررکھا ہے وہی ہر جان کی بھی حفاظت کر رہا ہے اور ہر چیز کا اصل حافظ وہی ہے، اگر وہ ایک لمحہ کے لیے اپنی توجہ ہٹالے تو سب کچھ فنا ہو جائے۔ جس طرح اس نے شیطانوں سے آسمانوں کی حفاظت ستاروں کے ذریعے سے کی ہے، اسی طرح آفات سے حفاظت کے لیے ہر شخص پر باری باری آنے والے فرشتے مقرر کیے ہیں (دیکھیے رعد: ۱۱) اور اس کے اعمال کو لکھ کر محفوظ کرنے کے لیے کراماً کاتبین مقرر کیے ہیں۔ دیکھیے سورۂ انفطار (۱۰ تا ۱۳)۔