یہ سورت مسلمانوں کو اہلِ مکہ کی ایذا رسانی پر صبر و استقامت کی تلقین کے لیے نازل ہوئی۔ اس مقصد کے لیے پہلی امتوں کے مسلمانوں کو پیش آنے والے شدید ترین امتحان اور اس پر ان کے صبر و ثبات اور انھیں ستانے والوں کے انجامِ بد کا تذکرہ فرمایا، تاکہ ان کے حالات سن کر انھیں تسلی ہو اور یقین ہو جائے کہ جس طرح اصحاب الاخدود مارے گئے اسی طرح وہ لوگ بھی مارے جائیں گے جو اب مسلمانوں کو امتحان میں ڈال رہے ہیں۔
(آیت 1)وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ:” الْبُرُوْجِ “”بُرْجٌ “ کی جمع ہے، اس کا اصل معنی ہے ”نمایاں اور ظاہر ہونے والی چیز۔“” تَبَرَّجَ “ کا معنی بے پردہ ہونا، ظاہر ہونا ہے۔ اس لیے بلند محل کو بُرج کہتے ہیں، شہر کی فصیل کے بلند حصوں کو بھی برج کہتے ہیں اور آسمان پر ستاروں کے اجتماع سے جو صورتیں نظر آتی ہیں انھیں بروج کہتے ہیں۔ وہ آسمانی ٹھکانے بھی بروج کہلاتے ہیں جن میں شیطانوں سے آسمان کی حفاظت کے لیے فرشتے پہرا دیتے ہیں۔ سورج اور چاند کی منزلوں کو بھی بروج کہا جاتا ہے۔