(آیت 7تا9)فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ …: آسان حساب کا مطلب یہ ہے کہ کرید کرید کر اصلی حساب نہیں ہوگا، فقط اعمال نامہ پیش ہوگا اور غلطیاں بھی سامنے لائی جائیں گی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف فرما دے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَیْسَ أَحَدٌ یُّحَاسَبُ إِلاَّ ھَلَكَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! جَعَلَنِيَ اللّٰہُ فِدَاءَكَ، أَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: «فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ (7) فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا» [ الانشقاق: 8،7 ] قَالَ ذَاکَ الْعَرْضُ یُعْرَضُوْنَ، وَمَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ ہَلَكَ ][ بخاري، التفسیر، باب: «فسوف یحاسب حسابا یسیرا»: ۴۹۳۹ ]”جس کسی کا بھی حساب لیا گیا وہ ہلاک ہو گیا۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی: ”یا رسول اللہ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے! کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتے کہ جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اس کا حساب آسان ہوگا؟“ آپ نے فرمایا: ”یہ صرف پیشی ہے (جس میں صرف اس کے اعمال) پیش کیے جائیں گے اور جس سے حساب میں پڑتال کی گئی وہ ہلاک ہوگیا۔“
جن بندوں پر اللہ کی نظر عنایت ہوگی ان کے آسان حساب کی ایک صورت وہ ہوگی جو ابن عمر رضی اللہ عنھما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يَدْنُوْ أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهٖ حَتّٰی يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ فَيَقُوْلُ عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا؟ فَيَقُوْلُ نَعَمْ، وَ يَقُوْلُ عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا؟ فَيَقُوْلُ نَعَمْ، فَيُقَرِّرُهُ ثُمَّ يَقُوْلُ إِنِّيْ سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ ][ بخاري، الأدب، باب ستر المؤمن علٰی نفسہ: ۶۰۷۰ ]”تم میں سے ایک (بندہ) اپنے رب کے قریب ہوگا، یہاں تک کہ وہ اپنا دامن اس پر رکھے گا (کہ کسی اور کو خبر نہ ہو)، پھر فرمائے گا: ”تونے یہ یہ کام کیے؟“ وہ کہے گا: ”ہاں!“ اور فرمائے گا: ”تو نے یہ یہ کام (بھی) کیے؟“ وہ کہے گا: ”ہاں!“ پس اللہ تعالیٰ اس سے اقرار کروالے گا، پھر فرمائے گا: ”میں نے دنیا میں تجھ پر پردہ ڈالا، سو آج میں تمھیں وہ گناہ معاف کرتا ہوں۔“ آسان حساب کی ایک صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا تھوڑی نیکی کا ثواب بہت زیادہ عطا فرما دے گا، جیساکہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کی امت کے ایک آدمی کے گناہوں کے حد نگاہ تک پھیلے ہوئے ننانوے (۹۹) دفتر کاغذ کے ایک پرزے کے مقابلے میں ہلکے ہو جائیں گے جس پر”أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ “ لکھا ہو گا۔ [ دیکھیے ترمذي، الإیمان، باب ما جاء فیمن یموت وھو یشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ: ۲۶۳۹، و صححہ الألباني ] غرض اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا حساب آسان کر دے گا، مگر شرط یہ ہے کہ آدمی ہر طرح کے شرک ظاہری اور شرک باطنی یعنی ریا سے پاک ہو، پھر اگر گناہ گار توبہ کے بغیر بھی مر گیا تو اللہ کی ذات سے رحمت اور آسانئ حساب کی توقع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ» [ النساء: ۴۸ ]”بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے جسے چاہے گا بخش دے گا۔“ مشرک کے لیے معافی نہیں، دوسروں کی مغفرت اللہ کی مشیت پر ہے۔ اس لیے نہ اس کے غضب سے بے خوف ہونا چاہیے اور نہ اس کی رحمت سے مایوس ہونا چاہیے۔