بنی اسرائیل کو جو حکم احکام دیئے گئے اور ان سے جن چیزوں پر عہد لیا گیا ان کا ذکر ہو رہا ہے ان کی عہد شکنی کا ذکر ہو رہا ہے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ توحید کو تسلیم کریں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں، یہ حکم نہ صرف بنو اسرائیل کو ہی دیا گیا بلکہ تمام مخلوق کو دیا گیا ہے فرمان ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ»[ 21۔ الانبیآء: 25 ] یعنی ” تمام رسولوں کو ہم نے یہی حکم دیا کہ وہ اعلان کر دیں کہ عبادت کے لائق میرے سوا اور کوئی، نہیں سب لوگ میری ہی عبادت کریں “۔ اور فرمایا «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ»[ 16۔ النحل: 36 ] یعنی ” ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسرے معبودان باطل سے بچو “۔
سب سے بڑا حق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اس کے تمام حقوق میں بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور دوسرے کسی کی عبادت نہ کی جائے اب حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا بیان ہو رہا ہے۔
بندوں کے حقوق میں ماں باپ کا حق سب سے بڑا ہے اسی لیے پہلے ان کا حق بیان کیا گیا ہے ارشاد ہے «اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ»[ 31۔ لقمان: 14 ] یعنی ” میرا شکر کرو اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مانو “۔ اور جگہ فرمایا «وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا»[ 17-الإسراء: 23 ] یعنی ” تیرے رب کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان اور سلوک کرتے رہو “۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا پوچھا اس کے بعد فرمایا ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرنا پوچھا پھر کون سا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ [صحیح بخاری:527] ایک اور صحیح حدیث میں ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کس کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، پوچھا پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا کس کے ساتھ؟ فرمایا! اپنے باپ کے ساتھ اور قریب والے کے ساتھ پھر اور قریب والے کے ساتھ۔[صحیح بخاری:5971]
آیت میں «لا تعبدون» فرمایا اس لیے کہ اس میں بہ نسبت «لاتعبدوا» کے مبالغہ زیادہ ہے۔
«طلب» یہ خبر معنی میں ہے بعض لوگوں نے «ان لا تعبدوا» بھی پڑھا ہے ابی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ «لا تعبدوا» پڑھتے تھے یتیم ان چھوٹے بچوں کو کہتے ہیں جن کا سر پرست باپ نہ ہو۔ مسکین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنی اور اپنے بال بچوں کی پرورش اور دیگر ضروریات پوری طرح مہیا نہ کر سکتے ہوں اس کی مزید تشریح ان شاءاللہ العظیم سورۃ نساء کی اس معنی کی آیات میں آئے گی پھر فرمایا لوگوں کو اچھی باتیں کہا کرو۔ یعنی ان کے ساتھ نرم کلامی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرو بھلی باتوں کا حکم اور برائی سے روکا کرو۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں بھلائی کا حکم دو۔ برائی سے روکو۔ بردباری، درگزر اور خطاؤں کی معافی کو اپنا شعار بنا لو یہی اچھا خلق ہے جسے اختیار کرنا چاہیئے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:258/1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اچھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگر اور کچھ نہ ہو سکے تو اپنے بھائیوں سے ہنستے ہوئے چہرے سے ملاقات تو کر لیا کرو ۔ [صحیح مسلم:2626]
پس قرآن کریم نے پہلے اللہ کی عبادت کا حکم دیا پھر لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے کا۔ پھر اچھی باتیں کہنے کا۔ پھر بعض اہم چیزوں کا ذکر بھی کر دیا نماز پڑھو زکوٰۃ دو۔ پھر خبر دی کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کی اور عموماً نافرمان بن گئے مگر تھوڑے سے پابند عہد رہے۔ اس امت کو بھی یہی حکم دیا گیا فرمایا «وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا»[ 4۔ النسآء: 36 ] یعنی ” اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ ماں باپ کے ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، قرابت دار پڑوسیوں کے ساتھ، اجنبی پڑوسیوں کے ساتھ، ہم مشرب مسلک کے ساتھ مسافروں کے ساتھ لونڈی غلاموں کے ساتھ، حسن سلوک احسان اور بھلائی کیا کرو۔
یاد رکھو تکبر اور فخر کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہ یہ امت بہ نسبت اور امتوں کے ان فرمانوں کے ماننے میں اور ان پر عمل پیرا ہونے میں زیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔ اسد بن وداعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ یہودیوں اور نصرانیوں کو سلام کیا کرتے تھے اور یہ دلیل دیتے تھے کہ فرمان باری ہے «وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ»[ 2۔ البقرہ: 83 ] لیکن یہ اثر غریب ہے اور حدیث کے خلاف ہے حدیث میں صاف موجود ہے کہ یہود نصاریٰ کو ابتداً سلام علیک نہ کیا کرو۔ [صحیح مسلم:2167] «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔