(آیت 18تا21) كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ …:” كَلَّاۤ “ یعنی یہ بات ہر گز نہیں کہ نافرمانوں کا یہ حال ہوگا تو نیکوں سے بھی یہی سلوک ہو۔ ” عِلِّيِّيْنَ “ اور ” عِلِّيُّوْنَ “”عِلِّيٌّ“ کی جمع ہیں جو ”عُلُوٌّ“ سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے ”بہت ہی اونچا شخص“ اور ” عِلِّيُّوْنَ “ کا معنی ہے ”بہت ہی اونچے لوگ۔“ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یہ ایک کتاب ہے جس میں نیک لوگوں کے نام اور ان کے اعمال واضح طور پر لکھے ہوئے ہیں، ان میں کوئی ردّ و بدل یا کمی بیشی ممکن نہیں۔ ” يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ “ یعنی اس کی نگرانی کے لیے مقرب فرشتے حاضر رہتے ہیں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ چونکہ وہ نیک لوگوں کا دفتر ہے، اس لیے اس کو دیکھنے کے لیے انھی مقرب لوگوں کو وہاں حاضر ہونے کی اجازت ہے جن کا وہ دفتر ہے۔ اس صورت میں ابرار ہی مقرب ہیں۔