(آیت 20)ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ: ” ذِيْ قُوَّةٍ “ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے، بڑی قوت والا۔ سورۂ نجم میں بھی جبریل علیہ السلام کا یہ وصف بیان ہوا ہے، فرمایا: «ذِيْ عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى (5) ذُوْ مِرَّةٍ» [ النجم: 6،5 ]”اسے نہایت مضبوط قوتوں والے (فرشتے) نے سکھایا۔ جو بڑی طاقت والا ہے۔“ جبریل علیہ السلام کی قوت کا ذکر یہاں اس لیے فرمایا ہے کہ ان کی قوت کے سبب سے شیطان ان سے بھاگتا ہے، جیسا کہ بدر میں انھیں دیکھ کر بھاگا تھا۔ (دیکھیے انفال: ۴۸) مطلب یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام کی قوت کی وجہ سے ان کی پیغام رسانی میں نہ شیطان کا کچھ دخل ہے اور نہ ان کی امانت داری کے سبب اس پیغام رسانی میں کسی خیانت کا دخل ہے، اس لیے کسی شک و شبہ کے بغیر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ (خلاصہ احسن التفاسیر)