(آیت 16،15)فَلَاۤ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ …: ”اَلْخُنَّسُ“”خَنَسَ“(ض)(پیچھے ہٹنا) سے ”خَانِسٌ“ کی جمع بروزن ”رُكَّعٌ“ ہے۔ ”خَنَّاسٌ“ بھی اسی سے ہے۔ اسی طرح ” الْكُنَّسِ “”كَانِسٌ“ کی جمع ہے۔ ”كِنَاسٌ“ ہرن وغیرہ کی درختوں میں بنائی ہوئی جگہ، جہاں وہ چھپ جاتے ہیں۔ ”كَنَسَ“(ض) چھپنے کی جگہ میں داخل ہو گیا، چھپ گیا۔ ” الْجَوَارِ “”جَرٰي يَجْرِيْ“ سے ”جَارِيَةٌ“ کی جمع ہے۔ مراد سورج، چاند اور ستارے ہیں۔ انھیں ”اَلْخُنَّسُ“(پیچھے ہٹنے والے) اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ سب مغرب میں غروب ہونے کے بعد پھر پیچھے یعنی مشرق کی طرف آنا شروع ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ مشرق سے دوبارہ نمودار ہو جاتے ہیں۔ ” الْجَوَارِ “ چلنے والے، یعنی ان کا کام ہی چلتے رہنا ہے، مغرب سے واپس مشرق کی طرف اور وہاں سے دوبارہ مغرب کی طرف۔ ” الْكُنَّسِ “ چھپنے والے، یعنی مغرب سے مشرق کی طرف چلتے ہوئے نظر نہیں آتے۔