(آیت 22)ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهٗ: ان تمام قدرتوں کو دیکھ کر کیا یہ تمھاری سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا میں آدمی جو بھی کام کرتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی انجام ضرور سوچتا ہے، تو پروردگار نے اتنا بڑا سلسلہ کیا اس لیے پیدا فرمایا ہے کہ کوئی اس اکیلے کی پرستش کرے، کوئی اس کی نعمتوں کو بھول کر بتوں کی پرستش کرتا رہے اور کوئی ظلم کرے یا کسی پر ظلم ہو، مرنے کے بعد سب برابر ہو جائیں؟ نہ اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرکے باز پرس فرمائے اور نہ کسی کو اس کے عمل کا بدلا ملے۔ نہیں، اللہ کے بارے میں یہ سوچنا ہی بے ادبی اور کفران نعمت ہے۔ ان آیات میں اس بے ادبی پر اللہ تعالیٰ نے ” قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗ “ کہہ کر خفگی کا اظہار فرمایا اور سورۂ مومنون میں فرمایا: «اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (115) فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ»[ المؤمنون: ۱۱۵، ۱۱۶ ]”تو کیا تم نے سمجھ لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟ پس اللہ بہت بلند ہے جو سچا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، عزت والے عرش کا رب ہے۔“