مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ سورت نابینا صحابی عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری۔ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشرکین میں سے ایک بڑا آدمی بیٹھا تھا کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے اور کچھ مسائل پوچھنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور توجہ اس دوسرے کی طرف رکھی، اس پر یہ سورت اتری۔ [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ عبس: ۳۳۳۱ ] البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ مشرک اُبی بن خلف تھا اور اس میں یہ بھی ہے کہ یہ سورت اترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا اکرام (عزت) کیا کرتے تھے۔ [ مسند أبي یعلٰی: 431/5، ح: ۳۱۲۳ ] اس کی سند صحیح ہے۔ صاحب احسن التفاسیر نے لکھا ہے کہ جن روایات میں ابی بن خلف کے بجائے ابو جہل اور عتبہ بن ربیعہ وغیرہ کا نام لکھا ہے ان کی سند صحیح نہیں۔ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ مکی، قرشی، مہاجرین اوّلین میں سے ہیں اور ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کے ماموں کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اپنے اکثر غزوات میں مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا کرتے تھے۔
(آیت 1) ➊ عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤى: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا، اگرچہ بعد میں ”وَ مَا يُدْرِيْكَ “ سے مخاطب فرما لیا۔ اس میں نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی سے بے توجہی کی تو اللہ تعالیٰ نے بطور عتاب آپ کے خطاب سے بے توجہی فرمائی۔ موضح القرآن میں ہے: ”یہ کلام گویا اوروں کے پاس گلہ ہے رسول کا۔ آگے رسول کو خطاب فرمایا۔“ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اکرام کی وجہ سے آپ کو مخاطب کرکے اظہار ناراضی نہیں فرمایا۔
➋ بعض حضرات نے ”تیوری چڑھانے والا“ اس مشرک کو قرار دیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا، مگر اس کے بعد آنے والی آیات میں صاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: «فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى» یعنی آپ اس آنے والے (نابینے صحابی) سے بے توجہی کرتے ہیں۔ اس لیے مذکورہ تفسیر درست نہیں۔