(آیت 17تا19) ➊ اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ …: فرعون کے پاس جانے کا حکم دینے کے ساتھ اسے دی جانے والی دعوت بھی سکھلائی، دعوت کے الفاظ میں اختصار کے باوجود نرمی اور ترغیب و ترہیب واضح طور پر نمایاں ہیں۔ سورۂ طٰہٰ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو فرمایا تھا: «فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى» [ طٰہٰ: ۴۴ ]”فرعون سے نرم بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا ڈر جائے۔“
➋ اِنَّهٗ طَغٰى:”یقینا وہ حد سے بڑھ گیا ہے۔“ فرعون کا حد سے بڑھنا ایک تو بندگی کی حد سے بڑھ کریہ کہنا تھا کہ میں تمھارا رب اعلیٰ ہوں، دوسرا خلق خدا پر اس کی طغیانی یہ تھی کہ اس نے قوم کو طبقوں میں تقسیم کرکے اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ خصوصاً بنی اسرائیل کے بیٹے ذبح کرتا اور عورتیں زندہ رکھتا تھا۔
➌ فَقُلْ هَلْ لَّكَ …: ” تَزَكّٰى “ پاک ہو جائے، یعنی شرک و کفر کی گندگی سے پاک ہو جائے۔ ” فَتَخْشٰى “ پس تو ڈر جائے، یعنی اپنے رب کا راستہ معلوم ہو جانے کے بعد تو ڈر جائے کہ پروردگار اپنی دی ہوئی حکومت چھین کر نعمتوں کی جگہ اپنی گرفت ہی میں نہ لے لے، چنانچہ تو اس ڈر سے اس کا شریک بننے اور بندوں پر ظلم کرنے سے بچ جائے، کیونکہ دل میں ڈر علم ہی سے پیدا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا» [ فاطر: ۲۸ ]”اللہ سے صرف اس کے علم والے بندے ہی ڈرتے ہیں۔“