(آیت 2،1)وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا …: ” النّٰزِعٰتِ “ اور ” النّٰشِطٰتِ “ سے مراد سختی اور آسانی کے ساتھ جان نکالنے والے فرشتے ہیں۔ اگرچہ ان الفاظ کی تفسیریں اور بھی کی گئی ہیں، مگر تفسیر طبری میں حسن سندوں کے ساتھ ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنھم سے یہی تفسیر مروی ہے اور صحیح احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جیسا کہ مسند احمد میں براء بن عازب رضی اللہ عنھما سے ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ وَ إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِّنَ الدُّنْيَا… ثُمَّ يَجِيْءُ مَلَكُ الْمَوْتِ عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتّٰی يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَيَقُوْلُ أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ! اخْرُجِيْ إِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ قَالَ فَتَخْرُجُ تَسِيْلُ كَمَا تَسِيْلُ الْقَطْرَةُ مِنْ فِي السِّقَاءِ… وَ إِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِّنَ الدُّنْيَا… ثُمَّ يَجِيْءُ مَلَكُ الْمَوْتِ حَتّٰی يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَيَقُوْلُ أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيْثَةُ! اخْرُجِيْ إِلٰی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتَفْرُقُ فِيْ جَسَدِهِ فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ ][مسند أحمد: ۴ /۲۸۷،۲۸۸، ح: ۱۸۵۶۱]”اور مومن آدمی جب دنیا سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے… تو ملک الموت علیہ السلام اس کے سر کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: ”اے پاکیزہ جان! اللہ کی مغفرت اور رضا کی طرف نکل آ۔“ تو وہ اس طرح نکل آتی ہے جس طرح مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے… اور کافر جب دنیا سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے… تو ملک الموت اس کے سر کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: ”اے خبیث جان! اللہ کی ناراضی اور غصے کی طرف نکل آ۔“ تو وہ جسم میں بکھر جاتی ہے تو وہ اسے اس طرح سختی سے کھینچ کر نکالتا ہے جس طرح بھیگی ہوئی اون سے گرم سلاخ کھینچ کر نکالی جاتی ہے۔“ مشکوٰۃ میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
” النّٰزِعٰتِ “ سختی سے کھینچ کر نکالنے والے۔“” غَرْقًا “”ڈوب کر۔“ یعنی ان فرشتوں کی قسم جو کفار کی جان ڈوب کر یعنی ان کے بدن کے ہر حصے میں پہنچ کر سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں، جب کہ وہ نکلنا نہیں چاہتی۔ ” النّٰشِطٰتِ “”نَشَطَ الْعِقَالَ“(ن) رسی کی گرہ کھولنا۔ فرشتے مسلمان کی روح گرہ کھول کر نکالتے ہیں اور وہ خوشی سے اللہ کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑتی ہے۔ کافر اور مومن کا یہ فرق روح کی حالت میں ہے، بدن کی تکلیف الگ ہے، اس میں مسلمان اور کافر برابر ہیں۔ (خلاصہ موضح)