رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں۔ انہیں جو محفوظ کر لے، وہ جنتی ہے۔ وہ وتر ہے، طاق کو ہی پسند فرماتا ہے۔ [صحیح بخاری:4610] (بخاری وغیرہ)
یہ حدیث غریب ہے۔ کچھ کمی، زیادتی کے ساتھ اسی طرح یہ نام ابن ماجہ کی حدیث میں بھی وارد ہیں۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ یہ نام راویوں نے قرآن میں چھانٹ لیے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ یہ یاد رہے کہ یہی ننانوے نام اللہ کے ہوں، اور نہ ہوں، یہ بات نہیں۔
مسند احمد میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جسے کبھی بھی کوئی غم و رنج پہنچے اور وہ یہ دعا کرے: «اللَّهُمَّ إنِّي عَبْدُكَ ابْنُ عَبْدِكَ ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَداً مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ: أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ العظیم رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدرِي، وَجلاَءَ حزنِي، وَذَهَابَ هَمِّي» ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے غم و رنج کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ راحت و خوشی عطا فرمائے گا۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہم اسے اوروں کو بھی سکھائیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! بیشک جو اسے سنے، اسے چاہیئے کہ دوسروں کو بھی سکھائے۔ [صحیح ابن حبان:972:صحیح بالشواھد]
امام ابوحاتم بن حبان بستی رحمہ اللہ بھی اس روایت کو اسی طرح اپنی صحیح میں لائے ہیں۔ امام ابوبکر بن عربی رحمہ اللہ بھی اپنی کتاب الاحوذی فی شرح الترمذی میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کتاب و سنت سے جمع کئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اللہ کے ناموں سے الحاد کرنے والوں کو چھوڑ دو۔ جیسے کہ لفظ اللہ سے کافروں نے اپنے بت کا نام لات رکھا اور عزیز سے مشتق کر کے عزیٰ نام رکھا۔
یہ بھی معنی ہیں کہ جو اللہ کے ناموں میں شریک کرتے ہیں، انہیں چھوڑو۔ جو انہیں جھٹلاتے ہیں، ان سے منہ موڑ لو۔
«الحاد» کے لفظی معنی ہیں: درمیانے، سیدھے راستے سے ہٹ جانا اور گھوم جانا۔ اسی لیے بغلی قبر کو «لحد» کہتے ہیں کیونکہ سیدھی کھدائی سے ہٹا کر بنائی جاتی ہے۔