(آیت 20) ➊ وَ سُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا: ” سَرَابًا “ جو دوپہر کے وقت دور سے دیکھنے والے کو پانی کی طرح نظر آتا ہے مگر حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح پہاڑ ریت بن جائیں گے جو دور سے پانی کی طرح نظر آتی ہے مگر حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو تا۔
➋ قرآن میں قیامت کے دن پہاڑوں پر گزرنے والے مختلف احوال بیان ہوئے ہیں، سب سے پہلے صور کی آواز کے ساتھ زمین اور پہاڑ ایک چوٹ سے توڑ دیے جائیں گے، فرمایا: «وَ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً» [ الحاقۃ: ۱۴ ]”اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائے گا اور دونوں ایک ہی بار ٹکرا دیے جائیں گے۔“ پھر بھربھری ریت ہو جائیں گے جو خود بخود گرتی جا رہی ہو، فرمایا: «وَ كَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيْبًا مَّهِيْلًا» [ المزمل: ۱۴ ]”اور پہاڑ گرائی ہوئی ریت کے ٹیلے ہو جائیں گے۔“ پھر دھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے، فرمایا: «وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ» [ القارعۃ: ۵ ]”اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔“ پھر بکھرا ہوا غبار بن جائیں گے، فرمایا: «فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّا» [ الواقعۃ: ۶ ]”پس وہ پھیلا ہوا غبار بن جائیں گے۔“ پھر بادلوں کی طرح چلیں گے، جیساکہ فرمایا: «وَ هِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ» [ النمل: ۸۸ ]”حالانکہ وہ بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔“ پھر سراب بن جائیں گے، جیسے یہاں فرمایا ہے، پھر ان میں سے کچھ بھی نہیں رہے گا، فقط چٹیل زمین رہ جائے گی جس میں کوئی بلندی یا پستی نہیں ہوگی، جیساکہ فرمایا: «فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا (106) لَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّ لَاۤ اَمْتًا» [ طٰہٰ: 107،106 ]”پھر وہ اسے ایک چٹیل میدان بنا کر چھوڑے گا، جس میں تونہ کوئی کجی دیکھے گا اور نہ کوئی ابھری ہوئی جگہ۔“