(آیت 41تا45) اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ ظِلٰلٍ وَّ عُيُوْنٍ …: اب جھٹلانے والوں کے مقابلے میں متقین کو ملنے والی نعمتوں کا ذکر ہوتا ہے کہ وہ دھوئیں کے سائے کے بجائے گھنے درختوں اور جنت کے مکانوں کے ٹھنڈے سایوں، چشموں اور اپنی پسند کے پھلوں میں عیش کر رہے ہوں گے۔ انھیں کہا جائے گا کہ مزے سے کھاؤ پیو، اس عمل کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے۔ ” وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ “ جھٹلانے والوں کے لیے اس دن بڑی ہلاکت ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے وہ لوگ عیش و آرام میں ہوں گے جنھیں وہ تمام عمر مذاق کرتے رہے اور یہ خود ان کے سامنے آگ میں جل رہے ہوں۔ ” هَنِيْٓـًٔا “ جو کسی مشقت کے بغیر حاصل ہو جائے اور اسے کھانے کے بعد کسی قسم کی گرانی یا بد ہضمی نہ ہو۔ (راغب) دنیا کے پھل مشقت سے ملتے ہیں اور کبھی موافق ہوتے ہیں، کبھی ناموافق، جبکہ جنت کے پھل سب موافق ہو ں گے۔