(آیت 25تا28) ➊ اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا …: ” كِفَاتًا “”كَفَتَ يَكْفِتُ“(ض)(سمیٹنا، جمع کرنا) سے مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، یعنی سمیٹنے والی۔ ” رَوَاسِيَ “”رَاسِيَةٌ“ کی جمع ہے اور ”رَسَا يَرْسُوْ“(ن) زمین میں گڑا ہوا ہونا، مراد پہاڑ ہیں۔” شٰمِخٰتٍ “ بلند۔ ” فُرَاتًا “ بہت ہی میٹھا۔ زمین زندوں کو سمیٹتی ہے، وہ اسی پر زندگی گزارتے ہیں، وہ ان کی غلاظتیں سنبھالتی ہے اور مردوں کو بھی اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اگر زمین مرنے والے انسانوں اور دوسرے جانداروں کو نہ سمیٹتی تو تعفن سے زندگی دشوار ہو جاتی۔ اس آیت سے مردوں کو سنبھالنے کے لیے دفن کی دلیل ملتی ہے، جو قومیں اپنے مردوں کو جلاتی ہیں ان کی راکھ اورہڈیاں بھی زمین ہی کے سپرد ہوتی ہیں۔
➋ وَ جَعَلْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ …: زمین بجائے خود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک بہت بڑا نشان ہے، پھر اس پر بلند و بالا پہاڑ اور انسان کے پینے کے لیے نہایت میٹھا پانی اللہ کی قدرت کے اتنے بڑے عجائب ہیں کہ ان کو دیکھ کر بھی جو لوگ آخرت کو جھٹلاتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے مخلوق کو دوبارہ بنانا ممکن نہیں، ان لوگوں کے لیے قیامت کے دن بہت بڑی خرابی اور ہلاکت ہے۔