(آیت 31) ➊ يُدْخِلُ مَنْ يَّشَآءُ فِيْ رَحْمَتِهٖ:”وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے“ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کو ہدایت کیوں نہیں دی؟ فرمایا ہدایت و رحمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، مالک اپنی چیز جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے، کوئی اسے پوچھ نہیں سکتا، جیسا کہ فرمایا: «لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْـَٔلُوْنَ» [ الأنبیاء: ۲۳ ]”اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھاجاتا ہے۔“
➋ وَ الظّٰلِمِيْنَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا: یعنی اس نے ظالموں کے لیے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے۔ یہاں ” الظّٰلِمِيْنَ “ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ سب سے بڑے ظالم وہی ہیں، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ» [لقمان: ۱۳]”بے شک شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے۔ “ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے محروم انھی کو رکھتا ہے جو ظالم ہیں، جیسے فرمایا: «يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا وَّ يَهْدِيْ بِهٖ كَثِيْرًا وَ مَا يُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ (26) الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَ يَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ يُّوْصَلَ وَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ» [ البقرۃ: 27،26 ]”وہ اس(قرآن) کے ساتھ بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس کے ساتھ گمراہ نہیں کرتا مگر نافرمانوں کو۔ وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو، اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی اپنی رحمت میں داخل فرمائے اور عذابِ الیم سے محفوظ رکھے۔ (آمین)