تفسير ابن كثير



باب

اسی طرح کی آیت «وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ» [4-النساء:154] ‏‏‏‏ ہے یعنی ” ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کیا۔ “ اسے فرشتے اٹھا لائے تھے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام انہیں ارض مقدس کی طرف لے چلے اور غصہ اتر جانے کے بعد تختیاں اٹھا لیں اور ان میں جو حکم احکام تھے، وہ انہیں سنائے تو انہیں وہ سخت معلوم ہوئے اور تسلیم و تعمیل سے صاف انکار کر دیا تو بحکم الٰہی فرشتوں نے پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر لا کھڑا کر دیا۔ (‏‏‏‏نسائی)

مروی ہے کہ جب کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ لو اللہ کی کتاب کے احکام قبول کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں سناؤ، اس میں کیا احکام ہیں؟ اگر آسان ہوئے تو ہم منظور کر لیں گے۔ ورنہ نہ مانیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام کے باربار کے اصرار پر بھی یہ لوگ کہتے رہے۔ آخر اسی وقت اللہ کے حکم سے پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے سروں پر معلق کھڑا ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر نے فرمایا: بولو اب مانتے ہو یا اللہ تعالیٰ تم پر پہاڑ گرا کر تمہیں فنا کر دے؟ اسی وقت یہ سب کے سب مارے ڈر کے سجدے میں گر پڑے لیکن بائیں آنکھ سجدے میں تھی اور دائیں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ گر نہ پڑے۔ چنانچہ یہودیوں میں اب تک سجدے کا طریقہ یہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی طرح کے سجدے نے ہم پر سے عذاب الٰہی دور کر دیا ہے۔

پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے ان تختیوں کو کھولا تو ان میں کتاب تھی جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ اسی وقت تمام پہاڑ، درخت، پتھر سب کانپ اٹھے۔ آج بھی یہودی تلاوت تورات کے وقت کانپ اٹھتے ہیں اور ان کے سر جھک جاتے ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.