(آیت 28) نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَ شَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْ …: ” اَسْرَهُمْ “”أَسْرٌ“ کا معنی باندھنا ہے، اسیر بھی اسی سے نکلاہے، یعنی ہم نے ان کے اعضا کا بندھن مضبوطی سے باندھا ہے، ہڈیوں اور پٹھوں کے جوڑ نہایت مضبوط بنائے ہیں، یعنی یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو عقل کے خلاف سمجھتے ہیں، لیکن اتنا نہیں سوچتے کہ ہم نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا، ان کے نرم و نازک رگ و ریشے، گوشت پوست، جوڑوں اور ہڈیوں کو مضبوطی سے باندھ دیا تو ہم دوبارہ انھیں کیوں زندہ نہیں کرسکتے؟ ہم تو جب چاہیں انھیں ختم کرکے ان کی جگہ ان جیسے اور لوگ لا سکتے ہیں، تو ان کا بنانا ہمیں کیا مشکل ہے؟ دوسری جگہ فرمایا: «اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّهَا النَّاسُ وَ يَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى ذٰلِكَ قَدِيْرًا» [ النساء: ۱۳۳ ]”اگر وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور دوسرے لوگوں کو لے آئے اور اللہ اس پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔“ مزید دیکھیے سورۂ ابراہیم (20،19)۔