(آیت 10) ➊ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا …: ” عَبُوْسًا “ تیوری چڑھانے والا، منہ بنانے والا۔ ” قَمْطَرِيْرًا “ سخت تیوری چڑھانے والا۔ سوال یہ ہے کہ اس دن کو ” عَبُوْسًا “ اور ” قَمْطَرِيْرًا “ کیوں کہا گیا، جبکہ تیوری چڑھانا اور منہ بگاڑنا آدمی کا کام ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس دن کی ہیبت اور سختی کی منظر کشی کے لیے اسے ایک ایسے شخص کی صورت میں پیش کیا ہے جس کے منہ اور ماتھے پر غصے کی وجہ سے سخت تیوری چڑھی ہوئی ہو۔ دوسرا یہ کہ جس طرح ”نَهَارُهٗ صَائِمٌ“(اس کا دن روزہ دار ہے) اور ” لَيْلُهٗ قَائِمٌ “(اس کی رات قیام کرنے والی ہے) میں صیام وقیام کی نسبت دن اور رات کی طرف کر دی ہے، حالانکہ روزہ رکھنا اور قیام کرنا آدمی کا کام ہے، اسی طرح یہا ں بھی اگرچہ دن کو تیوری چڑھانے والا کہا ہے مگر مراد یہ ہے کہ اس دن میں کافر کا چہرہ سخت تیوری والا اور بگڑا ہوا ہو گا، جیسے فرمایا: «وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ بَاسِرَةٌ» [ القیامۃ: ۲۴ ]”کئی چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے۔“
➋ ” اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا “(یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہو گا) میں ان جاہل صوفیوں کا ردّ ہے جو قیامت یا جہنم کے خوف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اخلاص کے خلاف سمجھتے ہیں۔