اللہ تعالیٰ نے یہود کو اطلاع کر دی کہ ان کی اس سخت نافرمانی اور باربار کی بغاوت اور ہر موقعہ پر نافرمانی، رب سے سرکشی اور اللہ کے حرام کو اپنے کام میں لانے کے لئے حیلہ جوئی کر کے اسے حلال کی جامہ پوشی کا بدلہ یہ ہے کہ قیامت تک یہ دبے رہیں گے، ذلت میں رہیں گے، لوگ ان کو پست کرتے چلے جائیں گے۔ خود موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان پر تاوان مقرر کر دیا تھا۔ سات سال یا تیرہ سال تک یہ اسے ادا کرتے رہے، سب سے پہلے خراج کا طریقہ آپ نے ہی ایجاد کیا۔ پھر ان پر یونانیوں کی حکومت ہوئی، پھر کشدانیوں اور کلدانیوں کی، پھر نصرانیوں کی۔
سب کے زمانے میں ذلیل اور حقیر رہے، ان سے جزیہ لیا جاتا رہا اور انہیں پستی سے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ ملا۔ پھر اسلام آیا اور اس نے بھی انہیں پست کیا، جزیہ اور خراج برابر ان سے وصول ہوتا رہا۔ غرض یہ ذلیل رہے۔ اس امت کے ہاتھوں بھی حقارت کے گڑھے میں گرے رہے۔
بالآخر یہ دجال کے ساتھ مل جائیں گے لیکن مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جا کر پھر ان کی تخم ریزی کر دیں گے۔ جو بھی اللہ کی شریعت کی مخالفت کرتا ہے، اللہ کے فرمان کی تحقیر کرتا ہے، اللہ اسے جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔ ہاں جو اس کی طرف رغبت و رجوع کرے، توبہ کرے، جھکے تو وہ بھی اس کے ساتھ بخشش و رحمت سے پیش آتا ہے۔
چونکہ ایمان نام ہے خوف اور امید کا، اسی لیے یہاں اور اکثر جگہ عذاب و ثواب، پکڑ دھکڑ اور بخشش، ڈراوا اور لالچ دونوں کا ایک ساتھ بیان ہوا ہے۔