سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہودی لوگ کہا کرتے تھے کہ دنیا کل مدت سات ہزار سال ہے۔ ہر سال کے بدلے ایک دن ہمیں عذاب ہو گا تو صرف سات دن ہمیں جہنم میں رہنا پڑے گا اس قول کی تردید میں یہ آیتیں نازل ہوئیں، بعض کہتے ہیں یہ لوگ چالیس دن تک آگ میں رہنا مانتے تھے . [تفسیر ابن جریر الطبری:276/2] کیونکہ ان کے بڑوں نے چالیس دن تک بچھڑے کی پوجا کی تھی بعض کا قول ہے کہ یہ دھوکہ انہیں اس سے لگا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ توراۃ میں ہے کہ جہنم کے دونوں طرف زقوم کے درخت تک چالیس سال کا راستہ ہے تو وہ کہتے تھے کہ اس مدت کے بعد عذاب اٹھ جائیں گے۔
ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا کہ چالیس دن تک تو ہم جہنم میں رہیں گے پھر دوسرے لوگ ہماری جگہ آ جائیں گے یعنی آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں بلکہ تم ہی تم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پڑے رہو گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:1409:ضعیف و مرسل]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں بطور ہدیہ بکری کا پکا ہوا زہر آلود گوشت آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں کے یہودیوں کو جمع کر لو پھر ان سے پوچھا تمہارا باپ کون ہے انہوں نے کہا فلاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹے ہو بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے انہوں نے کہا بجا ارشاد ہوا وہی ہمارا باپ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اب میں کچھ اور پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا انہوں نے کہا اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم اگر جھوٹ کہیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ چل سکے گا ہم تو آزما چکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ جہنمی کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کچھ دن تو ہم ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلو ہرگز نہیں پھر فرمایا اچھا بتلاؤ اس گوشت میں تم نے زہر ملایا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو یہ زہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز ضرر نہ دے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات حاصل کر لیں گے۔ [صحیح بخاری:3169 ]