(آیت 15،14)بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ …: ” بَصِيْرَةٌ “”بَصُرَ“(ک) سے صفت کا صیغہ ہے۔ ”تاء“ مزید مبالغے کے لیے ہے، جیسے ”عَلَّامَةٌ“ میں ہے، یہ تائے تانیث نہیں ہے، خوب دیکھنے والا۔ ” مَعَاذِيْرَ“”مَعْذِرَةٌ“ کی جمع ہے، یعنی اس دن انسان کو پہلے اور پچھلے اعمال بتائے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا کرتا رہا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنے متعلق خوب معلوم ہے کہ وہ اچھا کام کر رہا ہے یا برا۔ پھر دوسروں کے سامنے اپنے کفر و شرک، خالق کی نافرمانی، اس کی مخلوق پر ظلم و ستم اور اپنی خواہش پرستی کے جواز کے لیے مجبوری یا مصلحت کے لاکھ بہانے گھڑے، مگر خود اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور بہانہ بازی کر رہا ہے۔ اس کے نفس کی ملامت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں سے آگاہ ہے۔ نامۂ اعمال پیش کیے جانے کا مطلب تو اس پر حجت تمام کرنا ہے اور یہ حجت صرف نامۂ اعمال کے ذریعے سے نہیں بلکہ اس کے ہر ہر عضو کو بلوا کر اور زمین کے ہر اس حصے کو بلوا کر جس پر اس نے نافرمانی کی تھی، پوری کی جائے گی۔