(آیت 4،3) ➊ اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ …: ” قٰدِرِيْنَ “ حال ہے، اس سے پہلے فعل محذوف ہے: ”أَيْ بَلٰي نَجْمَعُهَا قَادِرِيْنَ…“”یعنی کیوں نہیں ہم انھیں جمع کریں گے، اس حال میں کہ ہم اس بات پر قادر ہیں…۔“
➋ قیامت کے منکرین یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ جب ان کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو کر ذرّات کی صورت میں بکھر جائیں گی تو انھیں پھر دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ(انسان اگر یہ خیال کرے کہ اس کی ہڈیاں خود بخود جمع نہیں ہو سکتیں یا مخلوق میں سے کوئی انھیں دوبارہ جمع نہیں کر سکتا تو اسے یہ سمجھنے کا حق ہے، مگر) کیا وہ ہمارے متعلق گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کر سکیں گے؟ پہلی دفعہ جب اس کا نام و نشان تک نہ تھا، ہم نے اسے پیدا کر دیا تو اب اس کی ہڈیاں کیوں جمع نہیں کرسکتے؟ یقینا ہم انھیں جمع کریں گے اور بڑی ہڈیاں ہی نہیں بلکہ ہم یہ بھی قدرت رکھتے ہیں کہ اس کے پورے، جو نہایت باریک اور نازک ہڈیوں پر مشتمل ہیں، دوبارہ درست کر کے بنا دیں۔ سورۂ یس (۷۷ تا ۷۹) اور سورۂ بنی اسرائیل (۴۹ تا ۵۱) میں یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔
➌ ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے دن جسم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور وہ بھی حساب، عذاب اور ثواب میں روح کے ساتھ شریک ہوں گے۔ صحیح بخاری (۳۴۸۱) میں بنی اسرائیل کے ایک آدمی کا ذکر آیا ہے جس کے بیٹوں نے اس کے کہنے کے مطابق اسے مرنے کے بعد جلا کر اور ہڈیوں کو پیس کر کچھ راکھ ہوا میں اڑا دی اور کچھ پانی میں بہا دی، تو اللہ تعالیٰ نے ہوا اور پانی کو حکم دے کر اس کے ذرّات اکٹھے کرکے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔ اگر روح ہی سے باز پرس ہو تو ذرّات جمع کرکے اسے دوبارہ سامنے کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟