(آیت 20) ➊ اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ …: سعد بن ہشام فرماتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا: ”آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے متعلق بتائیں؟“ انھوں نے فرمایا:” تم ” يٰۤاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ “ نہیں پڑھتے؟“ میں نے کہا: ”کیوں نہیں!“ تو انھوں نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع حصے میں قیام اللیل فرض فرمایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ایک سال قیام کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا آخری حصہ بارہ ماہ تک آسمان میں روکے رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصے میں تخفیف نازل فرمائی اور قیام اللیل فرض ہونے کے بعد نفل ہو گیا۔“[ مسلم، صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب جامع صلاۃ اللیل…: ۷۴۶ ] سورۂ مزمل کے اوّل اور آخر کے نزول کے متعلق سند کے لحاظ سے یہی بات سب سے زیادہ صحیح ہے۔ صحیح مسلم کی اسی روایت کے آخر میں ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما نے بھی عائشہ رضی اللہ عنھا کی بات کو درست قرار دیا، اس لیے بعض روایات میں آٹھ ماہ یا سولہ ماہ کا جو ذکر آیا ہے وہ روایات مرجوح ہیں اور سعید بن جبیر(تابعی) کا قول کہ سورۂ مزمل کا آخری حصہ دس سال بعد نازل ہوا، یہ عائشہ اور ابنِ عباس رضی اللہ عنھم جیسے جلیل القدرصحابہ کے ثابت شدہ فرمان کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
ہمارے دور کے بعض لوگوں نے عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنھم کے صحیح قول کو چھوڑ کر ایک تابعی سعید بن جبیر کے قول کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ سورۂ مزمل کے آغاز کے مضمون سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی، جب کہ آخری آیت میں جہاد اور زکوٰۃ کا ذکر ہے جو مدینہ میں فرض ہوئے، اس لیے اس کے اوّل و آخر میں دس سال کی مدت کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے۔ حالانکہ یہ بات ہی غلط ہے کہ مکی سورتوں میں جہاد یا زکوٰۃ کا ذکر نہیں، اگرچہ عملاً جہاد مدینہ میں شروع ہوا اور زکوٰۃ کا نصاب وغیرہ مدینہ میں مقرر ہوا مگر مکی سورتوں میں جہاد کا ذکر بھی ہے اور زکوٰۃ کا بھی۔ مزید دیکھیے اسی آیت کا فائدہ (۷) اور (۸)۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال تک تقریباً دو تہائی رات یا نصف یا ثلث قیام کرتے رہے اور صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے اتباع میں اتنا قیام کرتی رہی، گھڑیاں موجود نہیں تھیں، اسی خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ ہو جائے زیادہ سے زیادہ قیام کی کوشش کرتے مگر رات کے نصف یا ثلث کا صحیح اندازہ ان کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جو دن رات کا خالق ہے اور جسے دن رات کا خوب اندازہ ہے کہ رات کبھی لمبی ہوتی ہے کبھی چھوٹی، کبھی گرمی میں آتی ہے کبھی سردی میں، وہ خوب جانتا ہے کہ تم ہمیشہ یہ عمل ہرگز نہیں کر سکو گے، اس لیے اس نے مہربانی فرما کر آسانی فرما دی، اب جتنا آسانی سے قیام کر سکتے ہو کرو۔
➌ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہرگز یہ طاقت نہیں رکھتے کہ ہمیشہ رات کا دو ثلث یا نصف یا ثلث قیام کر سکیں تو پھر بعض بزرگوں کے متعلق جو حکایات بیان کی جاتی ہیں کہ انھوں نے چالیس (۴۰) سال تک عشاء اور فجر کی نماز ایک وضو سے پڑھی، ان کے متعلق غور کرنا چاہیے کہ جس کام کی طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ میں بھی ہر گز نہیں وہ ان لوگوں میں کیسے آگئی؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو رات کو گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھتے تھے، مگر ان بزرگوں کا کمال بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ہر رات ہزار ہزار رکعات پڑھتے تھے۔ اب یا تو ان حکایات کو جھوٹا ماننا پڑے گا یا ماننا پڑے گا کہ ان بزرگوں کی پوری کوشش تھی کہ ہر کام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھ کر دکھائیں۔
➍ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ: ”أَيْ فَصَلُّوْا مَا تَيَسَّرَ لَكُمْ مِّنْ قِيَامِ اللَّيْلِ“”یعنی رات کا قیام جتنا آسانی سے ہو سکتا ہے اتنی نماز پڑھو۔“ قراء ت کا لفظ بول کر نماز مراد لی گئی ہے، جیسا کہ اس کے دوسرے ارکان مثلاً قیام، رکعت اور سجدہ بول کر نماز مراد لی جاتی ہے۔ تو مطلب یہ کہ جتنا قیام آسانی سے کر سکتے ہو کرو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ” جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لو“ کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں ضروری نہیں کہ سورۂ فاتحہ ہی پڑھی جائے، آسانی سے جو آیت بھی پڑھ سکتا ہے پڑھ لے، نماز ہوجائے گی، مگر یہ بات درست نہیں۔ یہاں یہ ذکر ہی نہیں کہ نماز میں آسانی سے جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھ لو، بلکہ آیت کے سیاق سے صاف ظاہر ہے کہ ” مِنَ الْقُرْاٰنِ “ سے مراد رات کا قیام ہے، یعنی تم اتنا لمبا قیام نہیں کر سکتے تو آسانی سے جتنا قیام کر سکتے ہو کر لو۔ نماز کے متعلق جز بول کر کل مراد لینا عام ہے۔ مثلاً قیام، رکعت، سجدہ سب نماز کے اجزا ہیں، مگر ان میں سے ہر لفظ بول کر پوری نماز مراد لی جاتی ہے۔ ” فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ “ میں بھی قرآن بول کر نماز مراد لی گئی ہے۔ صاحب روح المعانی آلوسی حنفی لکھتے ہیں: ”أَيْ فَصَلُّوْا مَا تَيَسَّرَ لَكُمْ مِّنْ قِيَامِ اللَّيْلِ عُبِّرَ عَنِ الصَّلَاةِ بِالْقِرَاءَةِ كَمَا عُبِّرَ عَنْهَا بِسَائِرِ أَرْكَانِهَا“”یعنی تم جتنا آسانی سے رات کا قیام کر سکتے ہو کرو، یہاں قراء ت بول کر نماز مراد لی گئی ہے، جس طرح باقی ارکانِ نماز بول کر نماز مراد لی جاتی ہے۔“ اگر صرف الفاظ کو لیا جائے تو یہ معنی ہو گا کہ تم اتنے لمبے قیام کی طاقت ہر گز نہیں رکھتے، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو، خواہ نماز میں یا نماز کے بغیر، اتنا ہی رات کو پڑھ لیا کرو۔ صاحب روح المعانی نے اس معنی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، مگر پہلا معنی ہی زیادہ درست ہے۔
رہ گئی یہ بات کہ کوئی بھی آیت پڑھ لیں تو نماز ہو جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں اور تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ][ بخاري، الأذان، باب و جوب القراءۃ…: ۷۵۶۔ مسلم: ۳۹۴ ]”جو شخص سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہے۔“ ہاں اگر کسی شخص کو سورۂ فاتحہ بھی یاد نہیں تو وہ ”سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَإِلاَّ بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ“ پڑھتا رہے اور رکوع میں چلا جائے۔ [ دیکھیے أبو داوٗد، الصلاۃ، باب ما یجزیٔ الأمي…: ۸۳۲ و حسنہ الألباني ]
➎ عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى …: قیام اللیل میں تخفیف کی وجہ پہلے یہ بیان فرمائی تھی کہ رات کے دو ثلث، نصف یا ثلث کے اندازے کے ساتھ ہمیشہ اتنا لمبا قیام کرنا تمھاری طاقت سے باہر ہے، اس لیے جتنا قیام آسانی سے کر سکتے ہو کرو۔ اب طاقت سے باہر ہونے کی تین وجہیں بیان فرمائیں جو ہر شخص کو پیش آسکتی ہیں، پہلی وجہ بیماری ہے، اس میں بڑھاپا اور ہرقسم کی جسمانی معذوری شامل ہے۔ دوسری وجہ اللہ کا فضل یعنی رزق تلاش کرنے کے لیے سفر ہے، اس میں طلب علم، زیارتِ احباب اور دوسرے تمام جائز مقاصد کے لیے سفر شامل ہے۔ تیسری وجہ اللہ کی راہ میں لڑائی ہے، اس میں جنگ کے علاوہ اس کی تیاری اور پہرا سبھی کچھ شامل ہے۔ یہ اسباب بیان کرنے کے بعد دوبارہ فرمایا: «فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ» یعنی ان عذروں کی وجہ سے جتنا قیام آسانی سے کر سکو کرو۔
➏ ” تَيَسَّرَ مِنْهُ “ کی تعیین میں وہ حدیث بہت مناسب معلوم ہوتی ہے جو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِيْنَ وَ مَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِيْنَ وَ مَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِيْنَ ][ أبو داوٗد، تفریع أبواب شھر رمضان، باب تحزیب القرآن: ۱۳۹۸، وصححہ الألباني ]”جو شخص دس آیات کے ساتھ قیام کرے وہ غافلوں سے نہیں لکھا جاتا، جو سو آیات کے ساتھ قیام کرے وہ قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جاتا ہے اور جو ہزار آیات کے ساتھ قیام کرے وہ بڑے خزانے والوں میں لکھا جاتا ہے۔“ اس آیت اور حدیث سے تخفیف کے باوجود کم از کم دس آیات کے ساتھ قیام اللیل کی تاکید صاف ظاہر ہو رہی ہے۔
➐ ” وَ اٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “(اور کچھ دوسرے لوگ اللہ کی راہ میں لڑائی کر رہے ہوں گے) کے متعلق حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے، کیونکہ یہ آیت بلکہ ساری سورت مکہ میں اتری جب کہ جہاد شروع نہیں ہوا تھا، اس وقت یہ پیش گوئی غیب کی ایک خبر ہے جو ایک نبی ہی کے ذریعے سے دی جاتی ہے۔
➑ ” وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ “ سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، اگرچہ مختلف چیزوں کے نصاب کی تعیین مدینہ میں جا کر ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ قیام اللیل جتنا آسانی سے ہو سکے کرو، مگر فرض نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی ہر گز نہ کرو۔
➒ وَ اَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا …: زکوٰۃ کے بعد قرض حسنہ سے مراد نفلی صدقات ہیں، پھر زکوٰۃ ہو یا نفلی صدقات یا خیر کا کوئی بھی عمل وہ قیامت کے دن دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ کی صورت میں واپس ملیں گے۔
➓ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ: یعنی کوئی بھی عمل ہو اس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو، عمل پر پھول مت جاؤ۔ سورۂ ذاریات میں متقین کے متعلق فرمایا: «كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ (17) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ»[ الذاریات: ۱۷،۱۸]”وہ رات کو بہت کم سوتے تھے اور سحریوں کے وقت استغفار کرتے تھے۔“ ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے سلام پھیرتے تو تین دفعہ استغفار کرتے۔ [ مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ: ۵۹۱ ]