تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 15تا19) اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا…: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو دو طرح سے ڈرایا ہے، ایک فرعون کا قصہ یاد دلا کر کہ اگر تمھاری سرکشی فرعون کی طرح جاری رہی تو تمھارا انجام بھی فرعون اور اس کے لشکروں جیسا ہو گا، دوسرا یہ کہ اگر تم دنیا کے عذاب سے بچ بھی گئے تو قیامت کے اس عذاب سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا؟

شَاهِدًا عَلَيْكُمْ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی شہادت دیں گے کہ انھوں نے حق تعالیٰ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا اور یہ بھی کہ کس نے اسے مانا اور کس نے انکار کیا۔ یاد رہے کہ آپ انھی لوگوں کے متعلق یہ شہادت دیں گے جو آپ کی زندگی میں موجود تھے، جیسا کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِّنْ أُمَّتِيْ فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُوْلُ يَا رَبِّ! أُصَيْحَابِيْ، فَيُقَالُ إِنَّكَ لاَ تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَكَ فَأَقُوْلُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: «‏‏‏‏وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ» فَيُقَالُ إِنَّ هٰؤُلاَءِ لَمْ يَزَالُوْا مُرْتَدِّيْنَ عَلٰی أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ ] [بخاري، التفسیر، باب: «وکنت علیھم شھیدا…»: ۴۶۲۵ ] میری امت کے کچھ آدمی لائے جائیں گے اور انھیں بائیں طرف لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا نیا کام کیا تھا۔ تو میں وہی کہوں گا جو عبد صالح(عیسیٰ علیہ السلام) کہیں گے: «‏‏‏‏وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ» [ المائدۃ: ۱۱۷ ] میں ان پر اس وقت تک شہادت دینے والا تھا جب تک میں ان میں موجود تھا، پھرجب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو خود ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر شہادت دینے والا ہے۔ کہا جائے گا کہ جب سے آپ ان سے جدا ہوئے یہ لوگ اس وقت سے اپنی ایڑیوں پر پھرے رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے تمام احوال دیکھتے، سنتے اور جانتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر شہادت ہو نہیں سکتی، ان لوگوں کا استدلال درست نہیں۔ علاوہ ازیں شہادت کے لیے خود دیکھنا اور سننا بھی ضروری نہیں، بلکہ اگر ایسے ذریعے سے کوئی بات معلوم ہو جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو تو اس پر بھی شہادت دی جا سکتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت(۱۴۳) کی تفسیر۔

شِيْبًا أَشْيَبُ کی جمع ہے، سفید بالوں والا۔ شَابَ يَشِيْبُ شَيْبًا (ض) سفید بالوں والا ہونا۔ الْوِلْدَانَ وَلِيْدٌ کی جمع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن کی ہولناکی سے بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَا آدَمُ! يَقُوْلُ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ، فَيُنَادٰی بِصَوْتٍ إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ بَعْثًا إِلَی النَّارِ قَالَ يَا رَبِّ! وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ، أُرَاهُ قَالَ، تِسْعَمِائَةٍ وَ تِسْعَةً وَ تِسْعِيْنَ فَحِيْنَئِذٍ تَضَعُ الْحَامِلُ حَمْلَهَا وَيَشِيْبُ الْوَلِيْدُ «‏‏‏‏وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ» فَشَقَّ ذٰلِكَ عَلَی النَّاسِ حَتّٰی تَغَيَّرَتْ وُجُوْهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ تِسْعَ مِائَةٍ وَ تِسْعَةً وَ تِسْعِيْنَ، وَمِنْكُمْ وَاحِدٌ، ثُمَّ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِيْ جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَبْيَضِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِيْ جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ ] [بخاري، التفسیر، باب قولہ: «وتری الناس سکٰرٰی»: ۴۷۴۱ ] اللہ عزوجل قیامت کے دن آدم علیہ السلام سے کہیں گے: اے آدم! وہ عرض کریں گے: اے ہمارے پروردگار! میں بار بار حاضر ہوں تیری فرماں برداری کے لیے۔ پھر (انھیں) آواز دی جائے گی: اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے جہنم کی جماعت نکالو۔ وہ پوچھیں گے: اے میرے رب! جہنم کی جماعت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ تو اس وقت حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور بچے بوڑھے ہو جائیں گے «‏‏‏‏وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ» ‏‏‏‏ [ الحج: ۲ ] اور تو لوگوں کو دیکھے گا کہ بے ہوش ہیں، حالانکہ وہ بے ہوش نہیں ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب سخت ہے۔ یہ بات لوگوں پر بہت گراں گزری، حتیٰ کہ ان کے چہروں کے رنگ بدل گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاجوج ماجوج میں سے نو سو ننانوے اور تم میں سے ایک ہوگا۔ لوگوں کے مقابلے میں تمھاری تعداد اس طرح ہے جیسے سفید بیل کے پہلو میں ایک سیاہ بال یا سیاہ بیل کے پہلو میں ایک سفید بال ہوتا ہے۔ آیت اور حدیث میں بچوں کے بوڑھے ہونے کے ذکر سے اس دن کی بے پناہ سختی اور ہولناکی کا اظہار ہو رہا ہے، کیونکہ عام غم سے آدمی کے بال فوراً سفید نہیں ہوتے۔ یقینا وہ انتہائی غیر معمولی شدت اور ہولناکی ہوگی جو بچوں کے بالوں کو بھی سفید کر دے گی۔

السَّمَآءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ: باء فِيْ کے معنی میں ہے، یعنی ا س دن میں آسمان پھٹ جائے گا، یا باء سببیہ ہے، یعنی اس دن کی وجہ سے آسمان پھٹ جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اس دن کی شدت سے آسمان جیسی عظیم مخلوق پھٹ جائے گی تو دوسری چیزوں کا کیا حال ہوگا اور اگر کفر پر قائم رہے تو تم اس دن سے کس طرح بچو گے؟ آسمان کے مقابلے میں تمھاری تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.