(آیت 8)وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ …: ” بَتَلَ يَبْتُلُ“(ن،ض) قطع کرنا۔ ”تَبَتُّلٌ“ منقطع ہونا۔اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ رات کو خاص طورپر اٹھ کر قیام، تلاوت اور ذکر الٰہی کے علاوہ دن رات کے ہر وقت میں بھی اللہ کا ذکر جاری رکھ اور اپنی تمام تر توجہ مخلوق سے ہٹا کر اپنے رب ہی کی طرف رکھ۔ اس مطلب کا قرینہ یہ ہے کہ اس میں ذکر و تبتل کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: [ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ أَحْيَانِهٖ ][ مسلم، الحیض، باب ذکر اللّٰہ تعالٰی في حال الجنابۃ وغیرھا: ۳۷۳ ]” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دن کی لمبی چوڑی مصروفیات سے فارغ ہو کر رات کو خاص طور پر اپنے رب کا ذکر کر اور ہر کام سے کلی طور پر منقطع ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجا، جیسا کہ سورۂ انشراح میں فرمایا: «فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7) وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ» [ الانشراح: 8،7 ]” جب تو فارغ ہو تو محنت کر اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کر۔“ اس مطلب کا قرینہ شروع سورت سے آیات کا سیاق ہے۔ دونوں مطلب ہی درست ہیں، پہلے مطلب کی صورت میں عام ذکر و تبتل مراد ہو گا، جو دوسرے اشغال کے ساتھ بھی جاری رہتا ہے اور دوسرے میں خاص، جو دوسرے کام چھوڑ کر رات کی تنہائی میں یکسوئی سے ادا ہوتا ہے۔