تفسير ابن كثير



باب

سابقہ کتابوں میں آخری پیغمبر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف بیان ہوئے تھے جس سے ان نبیوں کی امت آپ کو پہچان جائے , وہ بیان ہو رہے ہیں۔ سب کو حکم تھا کہ ان صفات کا پیغمبر اگر تمہارے زمانے میں ظاہر ہو تو تم سب ان کی تابعداری میں لگ جانا۔

مسند احمد میں ہے: ایک صاحب فرماتے ہیں: میں کچھ خرید و فروخت کا سامان لے کر مدینے آیا۔ جب اپنی تجارت سے فارغ ہوا تو میں نے کہا: اس شخص سے بھی مل لوں۔ میں چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کہیں جا رہے ہیں۔ میں بھی پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ ایک یہودی عالم کے گھر گئے، اس کا نوجوان تنومند بیٹا نزع کی حالت میں تھا اور وہ اپنے دل کو تسکین دینے کیلئے تورات کھولے ہوئے اس کے پاس بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھے اس کی قسم جس نے یہ تورات نازل فرمائی ہے، کیا میری صفت اور میرے معبوث ہونے کی خبر اس میں تمہارے پاس ہے یا نہیں؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ اسی وقت اس کا بچہ بول اٹھا کہ اس کی قسم جس نے تورات نازل فرمائی ہے! ہم آپ کی صفات اور آپ کے آنے کا پورا حال اس تورات میں موجود پاتے ہیں اور میری تہہ دل سے گواہی ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔

آپ نے فرمایا: اس یہودی کو اپنے بھائی کے پاس سے ہٹاؤ۔ پھر آپ ہی اس کے کفن دفن کے والی بنے اور اس کے جنازے کی نماز پڑھائی۔ [مسند احمد:411/5:ضعیف] ‏‏‏‏

مستدرک حاکم میں ہے: ہشام بن عاص اموی فرماتے ہیں کہ میں اور ایک صاحب روم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کے لئے روانہ ہوئے۔ غوطہ دمشق میں پہنچ کر ہم جبلہ بن ایہم غسانی کے گھر گئے۔ اس نے اپنا قاصد بھیجا کہ ہم اس سے باتیں کر لیں۔ ہم نے کہا: واللہ! ہم تم سے کوئی بات نہ کریں گے۔ ہم بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں، اگر وہ چاہیں تو ہم سے خود سنیں اور خود جواب دیں ورنہ ہم قاصدوں سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے۔

قاصدوں نے یہ خبر بادشاہ کو پہنچائی، اس نے اجازت دی اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا چنانچہ میں نے اس سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ اس وقت سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا۔ کہنے لگا کہ دیکھ میں نے یہ لباس پہن رکھا ہے اور حلف اٹھایا ہے کہ جب تک تم لوگوں کو شام سے نہ نکال دوں گا، اس سیاہ لبادے کو نہ اتاروں گا۔ قاصد اسلام نے یہ سن کر پھر کہا: بادشاہ ہوش سنبھالو۔ اللہ کی قسم! یہ آپ کے تخت کی جگہ اور آپ کے بڑے بادشاہ کا پائے تخت بھی ان شاءاللہ ہم اپنے قبضے میں کر لیں گے۔ یہ کوئی ہماری ہوس نہیں بلکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ پختہ خبر مل چکی ہے۔

اس نے کہا: تم وہ لوگ نہیں۔ ہاں ہم سے ہمارا یہ تخت و تاج و قوم چھینے گی جو دنوں کو روزے سے رہتے ہوں اور راتوں کو تہجد پڑھتے ہوں۔

اچھا تم بتاؤ! تمہارے روزے کے احکام کیا ہیں؟ اب جو ہم نے بتائے تو اس کا منہ کالا ہو گیا۔ اس نے اسی وقت ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کر دیا اور کہا: انہیں شاہ روم کے پاس لے جاؤ۔ جب ہم اس کے پائے تخت کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا: تم اس حال میں تو اس شہر میں نہیں جا سکتے، اگر تم کہو تو میں تمہارے لیے عمدہ سواریاں لا دوں، ان پر سوار ہو کر تم شہر میں چلو۔ ہم نے کہا: نا ممکن ہے، ہم تو اسی حالت میں انہی سواریوں پر چلیں گے۔ انہوں نے بادشاہ سے کہلوا بھیجا۔ وہاں سے اجازت آئی کہ اچھا! انہیں اونٹوں پر ہی لے آؤ۔ ہم اپنے اونٹوں پر سوار، گلے میں تلواریں لٹکائے شاہی محل کے پاس پہنچے۔ وہاں ہم نے اپنی سواریاں بٹھائیں۔ بادشاہ دریچے میں سے ہمیں دیکھ رہا تھا، ہمارے منہ سے بےساختہ «لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ» کا نعرہ نکل گیا۔

اللہ خوب جانتا ہے کہ اسی وقت شاہ روم کا محل تھرا اٹھا، اس طرح جس طرح کسی خوشے کو تیز ہوا کا جھونکا ہلا رہا ہو۔ اسی وقت محل سے شاہی قاصد دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: آپ کو یہ نہیں چاہیئے کہ اپنے دین کا اس طرح ہمارے سامنے اعلان کرو، چلو! تم کو بادشاہ سلامت یاد کر رہے ہیں۔ چنانچہ ہم اس کے ساتھ دربار میں گئے۔ دیکھا کہ چاروں طرف سرخ مخمل اور سرخ ریشم ہے۔ خود بھی سرخ لباس پہنے ہوئے ہے۔ تمام دربار پادریوں اور ارکان سلطنت سے بھرا ہوا ہے۔

جب ہم پاس پہنچ گئے تو مسکرا کر کہنے لگا: جو سلام تم میں آپس میں مروج ہے، تم نے مجھے وہ سلام کیوں نہ کیا؟ ترجمان کی معرفت ہمیں بادشاہ کا یہ سوال پہنچا تو ہم نے جواب دیا کہ جو سلام ہم میں ہے، اس کے لائق تم نہیں اور جو آداب کا دستور تم میں ہے، وہ ہمیں پسند نہیں۔

اس نے کہا: اچھا تمہارا سلام آپس میں کیا ہے؟ ہم نے کہا: السلام علیکم۔ اس نے کہا: اپنے بادشاہ کو تم کس طرح سلام کرتے ہو؟ ہم نے کہا: صرف ان ہی الفاظ سے۔

پوچھا: اچھا وہ بھی تمہیں کوئی جواب دیتے ہیں؟ ہم نے کہا: یہی الفاظ وہ کہتے ہیں۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں سب سے بڑا کلمہ کون سا ہے؟ ہم نے کہا «لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ» ۔

اللہ عزوجل کی قسم! ادھر ہم نے یہ کلمہ کہا، ادھر پھر سے محل میں زلزلہ پڑا۔ یہاں تک کہ سارا دربار چھت کی طرف نظریں کر کے سہم گیا۔ بادشاہ ہیبت زدہ ہو کر پوچھنے لگا: کیوں جی اپنے گھروں میں بھی جب کبھی تم یہ کلمہ پڑھتے ہو، تمہارے گھر بھی اس طرح زلزلے میں آ جاتے ہیں؟ ہم نے کہا: کبھی نہیں۔ ہم نے تو یہ بات یہیں آپ کے ہاں ہی دیکھی ہے۔

بادشاہ کہنے لگا: کاش کہ تم جب کبھی اس کلمے کو کہتے، تمام چیزیں اسی طرح ہل جاتیں اور میرا آدھا ملک ہی رہ جاتا۔ ہم نے پوچھا: یہ کیوں؟ اس نے جواب دیا اس لیے کہ یہ آسان تھا بہ نسبت اس بات کے کہ یہ امر نبوت ہو۔

پھر اس نے ہم سے ہمارا ارادہ دریافت کیا: ہم نے صاف بتایا۔ اس نے کہا: اچھا! یہ بتاؤ کہ تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اور روزہ کس طرح رکھتے ہو؟ ہم نے دونوں باتیں بتا دیں۔ اس نے اب ہمیں رخصت کیا اور بڑے اکرام و احترام سے ہمیں شاہی معزز مہمانوں میں رکھا۔

تین دن جب گزرے تو رات کے وقت ہمیں قاصد بلانے آیا، ہم پھر دربار میں گئے تو اس نے ہم سے پھر ہمارا مطلب پوچھا: ہم نے اسے دوہرایا۔ پھر اس نے ایک حویلی کی شکل کی سونا مڑھی ہوئی ایک چیز منگوائی جس میں بہت سارے مکانات تھے اور ان کے دروازے تھے۔ اس نے اسے کنجی سے کھول کر ایک سیاہ رنگ کا ریشمی جامہ نکالا۔ ہم نے دیکھا کہ اس میں ایک شخص ہے جس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں، بڑی رانیں ہیں۔ بڑی لمبی اور گھنی داڑھی ہے اور سر کے بال دو حصوں میں نہایت کو خوبصورت لمبے لمبے ہیں۔ ہم سے پوچھا: انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں۔

کہا: یہ آدم علیہ السلام ہیں۔ ان کے جسم پر بال بہت ہی تھے۔ پھر دوسرا دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ ریشم کا پارچہ نکالا جس میں ایک سفید صورت تھی جس کے گھنگریالے بال تھے، سرخ رنگ آنکھیں تھیں، بڑے کلے کے آدمی تھے اور بڑی خوش وضع داڑھی تھی۔ ہم سے پوچھا: انہیں پہچانتے ہو؟ ہم نے انکار کیا تو کہا: یہ نوح علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ ریشمی کپڑا نکالا، اس میں ایک شخص تھا نہایت ہی گورا چٹا رنگ، بہت خوبصورت آنکھیں، کشادہ پیشانی، لمبے رخسار، سفید داڑھی، یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسکرا رہے ہیں۔ ہم سے پوچھا: انہیں پہچانا؟ ہم نے انکار کیا تو کہا: یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھولا، اس میں سے ایک خوبصورت سفید شکل دکھائی دی جو ہو بہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔ ہم سے پوچھا: انہیں پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا: یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ کہا اور ہمارے آنسو نکل آئے۔

بادشاہ اب تک کھڑا ہوا تھا، اب وہ بیٹھ گیا۔ اور ہم سے دوبارہ پوچھا کہ یہی شکل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے؟ ہم نے کہا: واللہ! یہی ہے۔ اسی طرح کہ گویا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دیکھ رہا ہے۔ پس وہ تھوڑی دیر تک تو غور سے اسے دیکھتا رہا، پھر ہم سے کہنے لگا کہ یہ آخری گھر تھا لیکن میں نے اور گھروں کو چھوڑ کر اسے بیچ میں ہی کھول دیا کہ تمہیں آزما لوں کہ تم پہچان جاتے ہو یا نہیں۔

پھر ایک اور دروازہ کھول کر اس میں سے بھی سیاہ رنگ ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں نرمی والی صورت تھی۔ بال گھونگھریالے، آنکھیں گہری، نظریں تیز، تیور تیکھے، دانت پر دانت، ہونٹ موٹے ہو رہے تھے جیسے کہ غصے میں بھرے ہوئے ہیں۔ اس نے ہم سے پوچھا: انہیں پہچانا؟ ہم نے انکار کیا۔ بادشاہ نے کہا: یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اسی کے متصل ایک اور صورت تھی جو قریب قریب اسی کی سی تھی۔ مگر ان کے سر کے بال گویا تیل لگے ہوئے تھے۔

ماتھا کشادہ تھا، آنکھوں میں کچھ فراخی تھی۔ ہم سے پوچھا: انہیں جانتے ہو؟ ہمارے انکار پر کہا: یہ ہارون بن عمران علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید رنگ ریشم کا ٹکڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں رنگ میانہ قد سیدھے بالوں والا ایک شخص تھا گویا وہ غضبناک ہے۔ پوچھا: انہیں پہچانا؟ ہم نے کہا: نہیں۔ کہا یہ لوط علیہ السلام ہیں۔

پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکال کر دکھایا جس میں سنہرے رنگ کے ایک آدمی تھے جن کا قد طویل نہ تھا، رخسار ہلکے تھے، چہرہ خوبصورت تھا۔ اس نے ہم سے پوچھا: انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں۔ کہا: یہ اسحاق علیہ السلام ہیں۔

پھر ایک اور دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشمی کپڑا نکال لر ہمیں دکھایا۔ اس میں جو صورت تھی، وہ پہلی صورت کے بالکل مشابہ تھی مگر ان کے ہونٹ پر تل تھا۔ اس نے ہم سے پوچھا: اسے پہچان لیا؟ ہم نے کہا: نہیں۔ کہا: یہ یعقوب علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ کا ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک شکل تھی سفید رنگ، خوبصورت اونچی ناک والے، نورانی چہرے والے جس میں خوف الٰہی ظاہر تھا۔ رنگ سرخی مائل سفید تھا۔ پوچھا اس نے: انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں۔ کہا: یہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا اسماعیل علیہ السلام ہیں۔

پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشمی کپڑے کا ٹکڑا نکال کر دکھایا جس میں ایک صورت تھی جو آدم علیہ السلام کی صورت سے بہت ہی ملتی جلتی تھی اور چہرہ تو سورج کی طرح روشن تھا۔ اس نے پوچھا: انہیں پہچانا؟ ہم نے لاعلمی ظاہر کی تو کہا: یہ یوسف علیہ السلام ہیں۔

پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشم کا پارچہ نکال کر ہمیں دکھایا جس میں ایک صورت تھی۔ سرخ رنگ، بھری پنڈلیاں، کشادہ آنکھیں، اونچا پیٹ، قدرے چھوٹا قد، تلوار لٹکائے ہوئے۔ اس نے پوچھا: انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں۔ کہا: یہ داؤد علیہ السلام ہیں۔ پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشم کا کپڑا نکالا جس میں ایک صورت تھی۔ موٹی رانوں والی، لمبے پیروں والی، گھوڑے پر سوار۔ اس نے پوچھا: انہیں پہچانا؟ ہم نے کہا: نہیں۔ کہا: یہ سلیمان علیہ السلام ہیں۔

پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس میں سے سیاہ رنگ حریری پارچہ نکالا جس میں ایک صورت تھی۔ سفید رنگ، نوجوان، سخت سیاہ داڑھی، بہت زیادہ بال، خوشمنا آنکھیں، خوبصورت چہرہ۔ اس نے پوچھا: انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں۔ کہا: یہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں۔

ہم نے پوچھا: آپ کے پاس یہ صورتیں کہاں سے آئیں؟ یہ تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ تمام انبیاء کی اصلی صورتوں کے بالکل ٹھیک نمونے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کو بالکل ٹھیک اور درست پایا۔ بادشاہ نے جواب دیا: بات یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے رب العزت سے دعا کی کہ آپ کی اولاد میں سے جو انبیاء علیہم السلام ہیں وہ سب کو دکھائے جائیں۔ پس ان کی صورتیں آپ پر نازل ہوئیں جو آدم علیہ السلام کے خزانے میں جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تھا، محفوظ تھیں۔ ذوالقرنین نے وہاں سے لے لیں اور دانیال کو دیں۔

پھر بادشاہ کہنے لگا کہ میں تو اس پر خوش ہوں کہ اپنی بادشاہی چھوڑ دوں۔ میں اگر غلام ہوتا تو تمہارے ہاتھوں بک جاتا اور تمہاری غلامی میں اپنی پوری زندگی بسر کرتا۔ پھر اس نے ہمیں بہت کچھ تحفے تحائف دے کر اچھی طرح رخصت کیا۔

جب ہم خلیفہ المسلمین امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دربار میں پہنچے اور یہ سارا واقعہ بیان کیا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رو دیئے اور فرمانے لگے: اس مسکین کے ساتھ اللہ کی توفیق رفیق ہوتی تو یہ ایسا کر گزرتا۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ نصرانی اور یہودی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اپنی کتابوں میں برابر پاتے ہیں۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:385/1-390] ‏‏‏‏ یہ روایت امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے۔ اس کی اسناد بھی خوف و خطر سے خالی ہے۔

عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفتیں تورات میں ہوں، وہ مجھے بتاؤ تو انہوں نے فرمایا: ہاں واللہ آپ کی صفتیں تورات میں ہیں، جو قرآن میں بھی ہیں کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا اور ان پڑھوں کو گمراہی سے بچانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور رسول ہیں، آپ کا نام متوکل ہے، آپ بدگو اور بدخلق نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قبض نہ کرے گا جب تک کہ آپ کی وجہ سے لوگوں کی زبان سے «لَا اِلٰہَ اِلّاََ اللہُ» کہلوا کر ٹیڑھے دین کو درست نہ کر دے، بند دلوں کو کھول نہ دے، بہرے کانوں کو سننے والا نہ بنا دے، اندھی آنکھوں کو دیکھتی نہ کر دے۔ یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:4838] ‏‏‏‏

عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پھر میں کعب رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ ایک حرف کی بھی کمی بیشی دونوں صاحبوں کے بیان میں نہ تھی۔ یہ اور بات ہے کہ آپ نے اپنی لغت میں دونوں کے الفاظ بولے۔

بخاری شریف کی اس روایت میں اس ذکر کے بعد کہ آپ بدخلق نہیں، یہ بھی ہے کہ آپ بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں، آپ برائی کے بدلے برائی کرنے والے نہیں بلکہ معافی اور درگزر کرنے والے ہیں۔ [صحیح بخاری:4838] ‏‏‏‏

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث کے ذکر کے بعد ہے کہ سلف کے کلام میں عموماً تورات کا لفظ اہل کتاب کی کتابوں پر بولا جاتا ہے۔ اس کے مشابہ اور بھی روایتیں ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

طبرانی میں جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں تجارت کی غرض سے شام میں گیا۔ وہاں میری ملاقات اہل کتاب کے ایک عالم سے ہوئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ نبی تم میں ہوئے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: اگر تمہیں ان کی صورت دکھائیں تو تم پہچان لو گے؟ میں نے کہا: ضرور! چنانچہ وہ مجھے ایک گھر میں لے گیا جہاں بہت سی صورتیں تھیں لیکن ان میں میری نگاہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی شبیہ نہ آئی، اسی وقت ایک اور عالم آیا۔ ہم سے پوچھا: کیا بات ہے؟ جب اسے ساری بات معلوم ہوئی تو وہ ہمیں اپنے مکان لے گیا۔ وہاں جاتے ہی میری نگاہ آپ کی شبیہ پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ گویا کوئی آپ کے پیچھے ہی آپ کو تھامے ہوئے ہے، میں نے یہ دیکھ کر اس سے پوچھا: یہ دوسرے صاحب پیچھے کیسے ہیں؟

اس نے جواب دیا کہ جو نبی آیا، اس کے بعد بھی نبی آیا لیکن اس نبی کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس کے پیچھے کا یہ شخص اس کا خلیفہ ہے۔ اب جو میں نے غور سے دیکھا تو وہ بالکل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شکل تھی۔ [طبرانی کبیر:1537:ضعیف] ‏‏‏‏

امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے مؤذن اقرع کو ایک پادری کے پاس بھیجا۔ آپ اسے بلا لائے، امیر المؤمنین نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم میری صفت اپنی کتابوں میں پاتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ کہا کیا؟ اس نے جواب دیا کہ قرن۔ آپ نے کوڑا اٹھا کر فرمایا: قرن کیا ہے؟ اس نے کہا: گویا کہ وہ لوہے کا سینگ ہے، وہ امیر ہے، دین میں بہت سخت۔ فرمایا: اچھا میرے بعد والے کی صفت کیا ہے؟ اس نے کہا کہ خلیفہ تو وہ نیک صالح ہے لیکن اپنے قرابتداروں کو وہ دوسروں پر ترجیح دے گا۔ آپ نے فرمایا: اللہ عثمان پر رحم کرے! تین بار یہ فرمایا، پھر فرمایا: اچھا! ان کے بعد؟ اس نے کہا: لوہے کے ٹکڑے جیسا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا اور افسوس کرنے لگے۔ اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہوں گے تو وہ نیک خلیفہ لیکن بنائے ہی اس وقت جائیں گے جب تلوار کھچی ہوئی ہو اور خون بہہ رہا ہو۔ [سنن ابوداود:4656، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏ابوداؤد)

ان کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ نیکیوں کا حکم دیں گے، برائیوں سے روکیں گے۔ فی الواقع آپ ایسے ہی تھے۔ کون سی بھلائی ہے جس کا آپ نے حکم نہ دیا ہو؟ کون سی برائی ہے جس سے آپ نے نہ روکا ہو؟

جیسے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم جب قرآن کے یہ لفظ سنو کہ اے ایمان والو تو اسی وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ کیونکہ یا تو کسی خیر کا تمہیں حکم کیا جائے گا یا کسی شر سے تمہیں بچایا جائے گا۔ ان میں سب سے زیادہ تاکید اللہ کی وحدانیت کی تھی جس کا حکم برابر ہر نبی کو ہوتا رہا۔

قرآن شاہد ہے کہ ہر امت کے رسول کو پہلا حکم یہی ملا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ماسوا کسی کی عبادت نہ کرو۔

مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں، تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لیے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمہارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے۔ پس میں بہ نسبت تمہارے بھی اس سے بہت دور ہوں۔ [مسند احمد:425/5:حسن] ‏‏‏‏ اس کی سند بہت پکی ہے

اسی کی ایک اور روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی حدیث سنو تو اس کے ساتھ وہ خیال کرو جو خوب راہ والا بہت مبارک اور بہت پرہیزگاری والا ہو۔ [مسند احمد:122/1:مرسل صحیح] ‏‏‏‏

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت بیان ہو رہی ہے کہ آپ کل پاک صاف اور طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں۔ بہت سی چیزیں ان میں ایسی تھیں جنہیں لوگوں نے از خود حرام قرار دے لیا تھا۔ جیسے جانوروں کو بتوں کے نام کر کے نشان ڈال کر انہیں حرام سمجھنا وغیرہ اور خبیث اور گندی چیزیں آپ لوگوں پر حرام کرتے ہیں۔ جیسے سور کا گوشت، سود وغیرہ اور جو حرام چیزیں لوگوں نے از خود حلال کر لی تھیں۔

بعض علماء کا فرمان ہے کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں کھاؤ۔ وہ دین میں بھی ترقی کرتی ہیں اور بدن میں بھی فائدہ پہنچاتی ہیں اور جو چیزیں حرام کر دی ہیں، ان سے بچو کیونکہ ان سے دین کے نقصانات کے علاوہ صحت میں بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ چیزوں کی اچھائی برائی دراصل عقلی ہے۔ اس کے بہت سے جواب دیئے گئے ہیں لیکن یہ جگہ اس کے بیان کی نہیں۔

اسی آیت کو زیر نظر رکھ کر بعض اور علماء نے کہا ہے کہ جن چیزوں کا حلال حرام ہونا کسی کو نہ پہنچا ہو اور کوئی آیت یا حدیث اس کے بارے میں نہ ملی ہو تو دیکھنا چاہیئے کہ عرب اسے اچھی چیز سمجھتے ہیں یا اس سے کراہت کرتے ہیں۔ اگر اسے اچھی چیز جان کر استعمال میں لاتے ہیں تو حلال ہے اور اگر بری چیز سمجھ کر نفرت کر کے اسے نہ کھاتے ہوں تو وہ حرام ہے۔ اس اصول میں بھی بہت کچھ گفتگو ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ آپ بہت صاف، آسان اور سہل دین لے کر آئیں گے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ میں ایک طرف آسان دین دے کر معبوث کیا گیا ہوں۔ [مسند احمد:116/6:صحیح] ‏‏‏‏

سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں: تم دونوں خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا۔ آسانی کرنا، سختی نہ کرنا۔ مل کر رہنا، اختلاف نہ کرنا۔ [صحیح بخاری:6124] ‏‏‏‏

آپ کے صحابی ابوبرزہ اسلمی فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے۔ [صحیح بخاری:1211] ‏‏‏‏

پہلی امتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس امت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میری امت کے دلوں میں جو وسوسے گزریں، ان پر انہیں پکڑ نہیں جب تک کہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ لائیں۔ [صحیح بخاری:2043] ‏‏‏‏

فرماتے ہیں: میری امت کی بھول چوک اور غلطی سے اور جو کام ان سے جبراً کرائے جائیں، ان سے اللہ تعالیٰ نے قلم اٹھا لیا ہے۔ [سنن ابن ماجه:2043، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

یہی وجہ ہے کہ اس امت کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم فرمائی کہ ” کہو اے ہمارے پروردگار! تو ہماری بھول چوک پر ہماری پکڑ نہ کر۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ لاد جو ہم سے پہلوں پر تھا۔ اے ہمارے رب! ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ کر۔ ہمیں معاف فرما، ہمیں بخش، ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا کار ساز مولیٰ ہے۔ پس ہمیں کافروں پر مدد عطا فرما۔ “ [2-البقرة:286] ‏‏‏‏

صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعائیں کیں تو ہر جملے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے یہ قبول فرمایا۔ [صحیح مسلم:126] ‏‏‏‏

پس جو لوگ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کا ادب، عزت کریں اور جو وحی آپ پر اتری ہے، اس نور کی پیروی کریں۔ وہی دنیا و آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.