(آیت 6) ➊ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ …: ” نَاشِئَةَ الَّيْلِ “(رات کا اٹھنا)”نَشَأَ يَنْشَأُ“(ف، ک) کا مصدر بروزن ”عَافِيَةٌ“ اور ”كَاذِبَةٌ“ ہے۔ ” نَشَأَ مِنْ مَّكَانِهِ“ وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ ” وَطْاً “”وَطِئَ يَطَأُ“(س) کا مصدر ہے، پاؤں سے روندنا، کچلنا۔ ” اَقْوَمُ “ زیادہ سیدھا، زیادہ درست۔ ” قِيْلًا “” قَوْلاً“ کی طرح مصدر ہے۔
➋ یعنی رات کا اٹھنا طبیعت پر بہت بھاری اور نفس کو کچلنے میں دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ واضح رہے کہ جو لوگ زیادہ سے زیادہ جسمانی ایذا برداشت کر لیتے ہیں بے خوابی کی ایذا کے سامنے ان کے حوصلے بھی جواب دے جاتے ہیں۔ نیند جیسی مرغوب چیز چھوڑ کر قیام کا مشکل ترین عمل کرنے سے نفس میں مشقت اٹھانے کی اتنی قوت پیدا ہو گی کہ وہ وحی الٰہی کو اٹھانے اور تبلیغ رسالت کے بھاری بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ ” اَقْوَمُ قِيْلًا “ رات کو جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے اور لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں اس وقت اٹھ کر آدمی اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اس مبارک وقت میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوتی جو اس کی توجہ خراب کرے، اس وقت منہ سے نکلنے والے الفاظ زبان اور دل دونوں سے نکل رہے ہوتے ہیں اور اس عمل میں کسی دکھاوے یا سناوے کی آمیزش بھی نہیں ہوتی، کیونکہ کوئی دوسرا نہ دیکھتا ہے نہ سن رہا ہوتا ہے، اس لیے اسے بات کرنے میں زیادہ درست قرار دیا۔ پھر رات کا آخری حصہ خاص قبولیت کا وقت بھی ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالٰی كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِيْنَ يَبْقٰی ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُوْلُ مَنْ يَّدْعُوْنِيْ فَأَسْتَجِيْبَ لَهُ؟ مَنْ يَّسْأَلُنِيْ فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ يَّسْتَغْفِرُنِيْ فَأَغْفِرَ لَهُ؟ ][بخاري، التہجد، باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل: ۱۱۴۵۔ مسلم: ۷۵۸ ]”ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب رات کا آخری ثلث باقی ہوتا ہے، فرماتا ہے: ”کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش کی درخواست کرے اور میں اسے بخشوں؟“