(آیت 24)حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ …: یعنی کفار اپنی تعداد کی کثرت اور اپنے مددگاروں کی قوت پر فخر اور مسلمانوں کی قلت تعداد اور کمزوری پر طعن کرتے ہیں تو کرتے رہیں، یہ سب کچھ تھوڑے وقت کے لیے ہے، یہاں تک کہ جب یہ لوگ وہ چیز (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو اس وقت انھیں معلوم ہو گا کہ مدد گاروں کے لحاظ سے کمزور اور تعداد میں کم کون ہے؟ وہ چیز جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے اس سے مراد اسلام کا غلبہ اور کفار کی شکست بھی ہے، جیسا کہ بدر، خندق، فتح مکہ اور حنین میں انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، کفار پر خوف اور قحط کا مسلط ہونا بھی ہے اور مرتے وقت فرشتوں کا ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر مارنا بھی، قبر کا عذاب بھی ہے، قیامت کی ہولناکی اور جہنم کی آگ بھی۔ درجہ بدرجہ یہ سب کچھ دیکھتے جانے کے ساتھ ہی ان پر اپنی تعداد کی کثرت اور حمایتیوں کی قوت کی حقیقت کھلتی جائے گی۔