(آیت 21) قُلْ اِنِّيْ لَاۤ اَمْلِكُ لَكُمْ …: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف اعلان کرنے کا حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کے لیے نہ نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے اور نہ ہی ہدایت اور گمراہی کا اختیار رکھتے ہیں۔ ” ضَرًّا “ کے مقابلے میں ”نَفْعًا“ اور ” رَشَدًا “ کے مقابلے میں ”غَيًّا“ حذف کر دیا ہے، کیونکہ وہ الفاظ خود بخود معلوم ہو رہے ہیں۔
ایک اور مقام پر یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے نفع یا نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ (دیکھیے اعراف: ۱۸۸) اور کئی مقامات پر واضح فرمایا کہ اللہ کے علاوہ جن لوگوں کو بھی پکارا جاتا ہے وہ ذرہ برابر چیز کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ (مثلاً دیکھیے سبا:۲۲۔ فاطر:۱۳) اتنی صراحت کے بعد بھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا دوسرے انبیاء و اولیاء کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھے تو اسے خود ہی سوچنا چاہیے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے فرمان کی کیا قدر کی۔