موسیٰ علیہ السلام نے حسب فرمان الٰہی اپنی قوم میں سے ستر شخصوں کو منتخب کیا اور جناب باری سے دعائیں مانگنا شروع کیں۔ لیکن یہ لوگ اپنی دعا میں حد سے تجاوز کر گئے۔ کہنے لگے: اللہ تو ہمیں وہ دے جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیا ہو، نہ ہمارے بعد کسی کو دے۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو ناپسند آئی اور ان پر بھونچال آ گیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:74/6] جس سے گھبرا کر موسیٰ علیہ السلام اللہ سے دعائیں کرنے لگے۔
سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”انہیں لے کر آپ اللہ تعالیٰ سے بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کی معذرت کرنے کے لئے گئے تھے۔ یہاں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے: ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں، ایمان نہ لائیں گے۔ ہم کلام سن رہے ہیں لیکن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر کڑاکے کی آواز ہوئی اور یہ سب مر کھپ گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے رونا شروع کیا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ ان کے یہ بہترین لوگ تھے۔ اگر یہی منشاء تھی تو اس سے پہلے ہی ہمیں ہلاک کر دیا ہوتا۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:73/6]
امام محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ انہیں اس بت پرستی سے توبہ کرنے کیلئے بطور وفد کے آپ لے چلے تھے۔ ان سے فرما دیا تھا کہ پاک صاف ہو جاؤ، پاک کپڑے پہن لو اور روزے سے چلو۔ یہ اللہ کے بتائے ہوئے وقت پر طور سینا پہنچے۔ مناجات میں مشعول ہوئے تو انہوں نے خواہش کی کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم بھی اللہ کا کلام سنیں۔ آپ نے دعا کی، جب حسب عادت بادل آیا اور موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ گئے اور بادل میں چھپ گئے۔ قوم سے فرمایا: تم بھی قریب آ جاؤ، یہ بھی اندر چلے گئے اور حسب عادت موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی پر ایک نور چمکنے لگا جو اللہ کے کلام کے وقت برابر چمکتا رہتا تھا۔ اس وقت کوئی انسان آپ کے چہرے پر نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا۔ آپ نے حجاب کر لیا، لوگ سب سجدے میں گر پڑے اور اللہ کا کلام شروع ہوا جو یہ لوگ بھی سن رہے تھے کہ فرمان ہو رہا ہے، یہ نہ کر وغیرہ۔
جب باتیں ہو چکیں اور ابر اٹھ گیا تو ان لوگوں نے کہا: ہم تو جب تک اللہ کو خوب ظاہر نہ دیکھ لیں، ایمان نہیں لائیں گے تو ان پر کڑاکا نازل ہوا اور سب کے سب ایک ساتھ مر گئے۔ موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے اور مناجات شروع کر دی۔ اس میں یہاں تک کہا کہ اگر ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے پہلے ہلاک کیا ہوتا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام کو اور شبر، شبیر کو لے کر پہار کی گھاٹی میں گئے۔ ہارون ایک بلند جگہ کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کر لی گئی۔ جب آپ واپس بنی اسرائیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کے بھائی بڑے ملنسار اور نرم آدمی تھے آپ نے ہی انہیں الگ لے جا کر قتل کر دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: اچھا تم اپنے میں سے ستر آدمی چھانٹ کر میرے ساتھ کر دو۔ انہوں نے کر دیئے جنہیں لے کر آپ گئے اور ہارون علیہ السلام کی لاش سے پوچھا کہ آپ کو کس نے قتل کیا؟ اللہ کی قدرت سے وہ بولے: کسی نے نہیں بلکہ میں اپنی موت مرا ہوں۔ انہوں نے کہا: بس موسیٰ علیہ السلام، اب سے آپ کی نافرمانی ہرگز نہ کی جائے گی۔ اسی وقت زلزلہ آیا جس سے وہ سب مر گئے۔ اب تو موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے، دائیں بائیں گھومنے لگے اور وہ عرض کرنے لگے جو قرآن میں مذکور ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی التجا قبول کر لی۔ ان سب کو زندہ کر دیا اور بعد میں وہ سب انبیاء بنے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:74/6] لیکن یہ اثر بہت ہی غریب ہے۔ اس کا ایک راوی عمارہ بن عبد غیر معروف ہے۔
یہ بھی مروی ہے کہ ان پر اس زلزلے کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بچھڑے کی پرستش کے وقت خاموش تھے۔ ان پجاریوں کو روکتے نہ تھے۔ اس قول کی دلیل میں موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان بالکل ٹھیک اترتا ہے کہ اے اللہ! ہم میں سے چند بیوقوفوں کے فعل کی وجہ سے تو ہمیں ہلاک کر رہا ہے؟ پھر فرماتے ہیں: یہ تو تیری طرف کی آزمائش ہی ہے، تیرا حکم چلتا ہے اور تیری ہی چاہت کامیاب ہے۔
ہدایت و ضلالت تیرے ہی ساتھ ہے . جس کو تو ہدایت دے , اسے کوئی بہکا نہیں سکتا اور جسے تو بہکائے , اس کی کوئی رہبری نہیں کر سکتا۔ تو جس سے روک لے , اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے دے دے، اس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ ملک کا مالک تو اکیلا، حکم کا حاکم صرف تو ہی۔ خلق و امر تیرا ہی ہے، تو ہمارا ولی ہے۔ ہمیں بخش، ہم پر رحم فرما، تو سب سے اچھا معاف فرمانے والا ہے۔
غفر کے معنی ہیں: چھپا دینا اور پکڑ نہ کرنا۔ جب رحمت بھی اس کے ساتھ مل جائے تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ آئندہ اس گناہ سے بچاؤ ہو جائے۔ گناہوں کا بخش دینے والا صرف تو ہی ہے۔ پس جس چیز سے ڈر تھا، اس کا بچاؤ طلب کرنے کے بعد اب مقصود حاصل کرنے کے لئے دعا کی جاتی ہے کہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما۔ اسے ہمارے نام لکھ دے۔ واجب و ثابت کر دے۔
«حسنہ» کی تفسیر سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہے۔ ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں، رغبت ہماری تیری ہی جانب ہے، ہماری توبہ اور عاجزی تیری طرف ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”چونکہ انہوں نے «ھُدْنَا» کہا تھا، اس لیے انہیں یہودی کہا گیا ہے۔“ لیکن اس روایت کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔