(آیت 22)وَ مَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا: ” كُبَّارًا “(باء کی تشدید کے ساتھ) میں ”كُبَارٌ“(باء کی تشدید کے بغیر) سے زیادہ مبالغہ ہے اور”كُبَارٌ“ میں ”كَبِيْرٌ“ سے زیادہ مبالغہ ہے، یعنی انھوں نے بہت ہی بڑی بڑی خفیہ تدبیریں کیں۔ ” مَكْرًا “ جنس ہے، اس سے صرف ایک ہی مکر مراد نہیں۔ یہ اسی قسم کے حربے تھے جو ہمیشہ کسی قوم کے چودھری اور مال دار لوگ اپنے اقتدار کی خاطر اہلِ حق کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ قرآن میں ان میں سے کئی حربے مذکور ہیں، مثلاً یہ کہ اگر نوح (علیہ السلام) اللہ کا نبی ہوتا تو فرشتہ ہوتا، یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ اس کے پیرو کار نیچ لوگ ہیں، اگر یہ رسول ہوتا تو اس کے پاس خزانے ہوتے، بڑے بڑے لوگ اس کے ساتھ ہوتے، یہ غیب جانتا ہوتا، یہ تو بس سرداری چاہتا ہے، یہ دیوانہ ہے وغیرہ۔ مزید تفصیل کے لیے سورۂ اعراف، سورۂ ہود اور سورۂ مومنون وغیرہ میں نوح علیہ السلام کے واقعات ملاحظہ فرمائیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی یہی حربے استعمال کیے گئے۔