(آیت 15تا20)اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ …: نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ان کی پیدائش میں توحید اور قیامت کے دلائل کی طرف توجہ دلانے کے بعد ان چیزوں پر غور و فکر کی دعوت دی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے گردو پیش ان کی ضرورتوں کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ فرمایا کیا تم نے غور نہیں کیاکہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان، ان میں روشنی پھیلانے والا چاند اور جلتا ہوا چراغ یعنی سورج کس طرح پیدا فرمایا؟ زمین کو بچھونے کی طرح نرم کر دیا اور تمھاری سہولت کے لیے اس میں گھاٹیاں اور کشادہ رستے بنا دیے۔ یہ تمام انتظام اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں کیا، بلکہ جس طرح اس نے تمھیں پہلے زمین سے پیدا کیا ہے اسی طرح زمین میں دفن کرنے کے بعد تمھیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس کے علاوہ تمھاری ضرورت کی یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہیں، تمھارے معبودانِ باطلہ نے تو کچھ بھی پیدا نہیں کیا، تم نے دونوں کو برابر کیسے سمجھ لیا؟