(آیت 4) ➊ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ: ” مِنْ “ کا معنی عام طور پر ”بعض“ ہوتا ہے، اس صورت میں معنی ہو گا ”اور وہ تمھارے کچھ گناہ معاف کر دے گا۔“ مگر اس پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ کچھ گناہ تو پھر بھی باقی رہ گئے، ان کا کیا بنے گا؟اس کا ایک جواب وہ ہے جو امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے دیا ہے کہ یہاں ” مِنْ “”عَنْ“ کی جگہ آیا ہے اور ”جَمِيْعٌ“ کا معنی دے رہا ہے، گویا ” يَغْفِرْ “ کے ضمن میں ”يَصْفَحُ“ اور ”يَعْفُوْ“ کا معنی ملحوظ ہے: ”أَيْ يَعْفُوْ لَكُمْ عَنْ جَمِيْعِ ذُنُوْبِكُمْ“”یعنی وہ تمھارے سب گناہ معاف کر دے گا۔“ دوسرا یہ ہے کہ ” مِنْ “” بَعْضٌ“ ہی کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ اگر تم میری دعوت قبول کرکے ایمان لے آؤ گے تو تمھارے پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے، کیونکہ اسلام پہلے سب گناہ مٹا دیتا ہے، البتہ آئندہ کے لیے گناہوں سے بچتے رہنا، یہ نہ سمجھنا کہ ایمان لانے سے پہلے پچھلے سب گناہ معاف ہو جائیں گے۔
➋ وَ يُؤَخِّرْكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى: یعنی طبعی موت کا ایک وقت مقرر ہے، وہ کفر کی وجہ سے یا ایمان نہ لانے کی وجہ سے نہیں آتی بلکہ ہرمومن و کافر پر آتی ہے۔ وہ تو اپنے مقرر وقت پر آکر رہے گی، البتہ ایمان لے آؤ گے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب سے جو کفر کے نتیجے میں آتا ہے، تمھیں محفوظ رکھے گا۔
➌ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَ لَا يُؤَخَّرُ …: اس مقرر وقت سے مراد وہ وقت ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں کسی قوم پر عذاب کے لیے مقرر ہوتا ہے۔ کاش! تمھیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ وہ وقت آنے پر مہلت ختم ہو جائے گی، پھر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو تم اس سے پہلے پہلے ایمان لے آؤ۔