(آیت 34)وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ: نمازیوں کے اوصاف کا آغاز نماز پر ہمیشگی سے کیا اور ان کا اختتام نماز پر محافظت سے کیا ہے۔ اس سے نماز کی اہمیت صاف واضح ہو رہی ہے۔ محافظت سے مراد اس کے اوقات کا خیال رکھنا اور اس کے شروط و ارکان کی صحیح ادائیگی کا خیال رکھنا ہے۔ منافق نہ صحیح وقت پر نمازپڑھتا ہے اور نہ اطمینان و سکون سے اس کے ارکان کو درست طریقے سے ادا کرتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: [ تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّی إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا لَا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيْهَا إِلَّا قَلِيْلًا ][مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر بالعصر: ۶۲۲ ]”یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھ کر سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے (یعنی غروب ہونے کے قریب ہوجاتا ہے) تو اٹھ کر اس کے لیے چار ٹھونگے مار لیتا ہے، اس میں اللہ کا ذکرنہیں کرتا مگر کم۔“