(آیت 4) ➊ تَعْرُجُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ اِلَيْهِ: فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں۔ یہاں ” الرُّوْحُ “ سے مراد یا تو جبریل علیہ السلام ہیں، کیونکہ قرآن میں ان کا نام ” الرُّوْحُ “ ہے، جیسا کہ فرمایا: «نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ (193) عَلٰى قَلْبِكَ»[ الشعراء:۱۹۳، ۱۹۴ ]”اس قرآن کو روح الامین نے تمھارے دل پر نازل کیاہے۔“ اور دوسری جگہ فرمایا: «قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ» [ البقرۃ: ۹۷ ]”کہہ دو جو جبریل کا دشمن ہے(وہ اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟) کیونکہ بلاشبہ اس نے تو اسے تمھارے دل پر اللہ کے حکم سے نازل کیا ہے۔“ دونوں آیتیں ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ ” الرُّوْحُ “ سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ فرشتوں سے ان کا الگ ذکر ان کی عظمت شان کی وجہ سے ہے۔ یا مراد مومنوں کی ارواح ہیں، کیونکہ نیک لوگ جب فوت ہوتے ہیں توفرشتے ان کی ارواح کو آسمان کی طرف لے کر جاتے ہیں تو آسمانوں کے دروازے ان کے لیے کھلتے چلے جاتے ہیں، جیساکہ ابو ہریرہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنھم کی صحیح احادیث میں آیا ہے۔ [ دیکھیے نسائي، الجنائز، باب ما یلقی بہ المؤمن…: ۱۸۳۴۔ أبوداوٗد: ۴۷۵۳ ] البتہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں کی ارواح کو لے کر فرشتے چڑھتے ہیں تو ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۴۰) اور مذکورہ بالا احادیث۔
اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا بلندی پر ہونا اور فرشتوں اور روح کا اس کی طرف چڑھنا صاف ثابت ہو رہا ہے۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اوپر کی جانب ہونے اور عرش پر ہونے کے منکر ہیں وہ قرآن مجید کی صریح آیات سن کر بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ ان کا رب اوپر کی جانب ہے۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے، حالانکہ یہ کسی نے کہا ہی نہیں کہ بلندی یا عرش اس کے لیے قید ہے یا وہ ان کا محتاج ہے۔
➋ ” فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ “(ایک ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے، یعنی وہ اتنی بلندی پر ہے کہ فرشتوں اور روح کو اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے لیے اتنی بلندیوں پر چڑھنا پڑتا ہے کہ کوئی اور چڑھے تو اسے پچاس ہزار سال لگ جائیں، مگر فرشتے اور روح وہ فاصلہ ایک دن میں طے کر لیتے ہیں۔ (ابن جریر) واضح رہے کہ پچاس ہزار سال کا عدد بھی صرف فاصلے کی دوری بیان کرنے کے لیے ہے، کیونکہ انسان کی محدود نظروں نے آلات کی مدد سے جو کچھ دیکھا ہے اس سے آسمان کے نیچے ہی اتنی وسیع کہکشائیں معلوم ہوئی ہیں کہ زمین سے ان کے ستاروں کے فاصلے ماپنے کے لیے ”نوری سال“ کی اصطلاح وضع کرنا پڑی۔ عربی زبان میں پچاس، سو، ہزار وغیرہ کا عدد کثرت کے بیان کے لیے عام استعمال ہوتا ہے، اس سے مراد گنتی نہیں ہوتی۔ فرشتے اور روح اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قوت و سرعت کی بدولت تحت الثریٰ سے لے کر ساتوں آسمانوں کے اوپر تک پچاس ہزار سال کا یہ فاصلہ ایک ہی دن میں طے کر لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی قدرت سے ہر کام سات آسمانوں پر سے اتنی جلدی ہو جاتا ہے تو ان عذاب مانگنے والوں پر عذاب کے آنے میں کیا دیر لگتی ہے، بس تھوڑا سا صبر کریں۔آیت کے الفاظ کی رو سے یہ معنی قریب ہے، کیونکہ ” فِيْ يَوْمٍ “ سے متصل پہلے ہی ” تَعْرُجُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ اِلَيْهِ “ آیا ہے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ عذاب ایک ایسے دن میں واقع ہونے والا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ اس صورت میں ” فِيْ يَوْمٍ “ کا لفظ ” وَاقِعٍ “ کے متعلق ہے۔ یہ معنی زیادہ صحیح ہے، کیونکہ قرآن مجید سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور صحیح حدیث سے بھی۔ اس لیے حافظ ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ سورۂ طور کے شروع میں فرمایا: «اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ (7) مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ (8) يَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآءُ مَوْرًا (9) وَّ تَسِيْرُ الْجِبَالُ سَيْرًا» [ طور: ۷ تا۱۰ ]”یقینا تیرے رب کا عذاب ضرور ہو کر رہنے والا ہے۔ اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔ جس دن آسمان لرزے گا سخت لرزنا اور پہاڑ چلیں گے، بہت چلنا۔“ ان آیات میں بھی رب تعالیٰ کا عذاب، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں، قیامت کے دن واقع ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ زیر تفسیر آیات میں بھی ” فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ “ کے چند آیات بعد فرمایا: «يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَآءُ كَالْمُهْلِ (8) وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ» [ المعارج: 9،8 ]”(یہ پچاس ہزار سال والے دن کا عذاب اس دن ہو گا) جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔“ جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ” اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا “ سے بھی یہی ثابت ہو رہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ نہ دینے والے کو قیامت کے دن ہونے والے عذاب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: [ حَتّٰی يَحْكُمَ اللّٰهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمََّا تَعُدُّوْنَ ][أبو داوٗد، الزکاۃ، باب في حقوق المال: ۱۶۵۸۔ مسلم: ۹۸۷ ]”(زکوۃ نہ دینے والے کو عذاب ہوتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائے، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھاری گنتی سے پچاس ہزار سال ہے۔“ قیامت کے دن کی یہ درازی کفار کے لیے ہو گی اور یہ دوسرے عذاب کے ساتھ بجائے خود ایک عذاب ہو گی، ویسے بھی مصیبت کے دن لمبے ہوتے ہیں۔ رہے اہلِ ایمان تو وہ اس دن بالکل بے فکر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا: «لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ» [ یونس: ۶۲ ]”نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ اور فرمایا: «لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ» [ الأنبیاء: ۱۰۳]”انھیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہیں کرے گی اور انھیں فرشتے لینے کے لیے آئیں گے۔“ اور فرمایا: «وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ» [ النمل: ۸۹ ]”اور وہ اس دن گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔“ خوشی کے دن گزرنے میں دیر بھی نہیں لگتی۔