وعدے کے مطابق موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر پہنچے، اللہ کا کلام سنا تو دیدار کی آرزو کی، جواب ملا کہ یہ تیرے لیے نا ممکن ہے۔ اس سے معتزلہ نے استدلال کیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کا دیدار نہ ہو گا کیونکہ «لن» ابدی نفی کے لیے آتا ہے لیکن یہ قول بالکل ہی بودا ہے کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مومنوں کو قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہو گا۔ وہ حدیثیں آیت «وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ»[75-القيامة:22-23] اور آیت «كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ»[83-المطففين:15] کی تفسیر میں آئیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ۔
ایک قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ یہ نفی ابدی ہے لیکن دنیاوی زندگی کے لیے نہ کہ آخرت کے لیے۔ کیونکہ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ مومنوں کو قطعاً ہو گا جیسے کہ آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ اس طرح کوئی معارضہ بھی باقی نہیں رہتا۔
یہ آیت مثل «لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ»[6-الأنعام:103] کے ہے جس کی تفسیر سورۃ الانعام میں گزر چکی ہے۔
اگلی کتابوں میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر ان سے کہا گیا تھا کہ اے موسیٰ! مجھے جو زندہ شخص دیکھ لے، وہ مر جائے۔ میرے دیدار کی تاب کوئی زندہ لا نہیں سکتا۔ خشک چیزیں بھی میری تجلی سے تھرا اٹھتی ہیں۔ چنانچہ پہاڑ کا حال خود کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور خود بھی بےہوش ہو گئے۔
امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی، اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا تو وہ چکنا چور ہو گیا۔ راوی حدیث ابواسماعیل نے اپنے شاگردوں کو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15096] لیکن اس حدیث کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام واضح نہیں کیا گیا۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انگوٹھے کو اپنی چھنگلیا کی اوپر کی پور پر رکھ کر بتایا کہ اتنے سے جمال سے پہاڑ زمین کے ساتھ ہموار ہو گیا۔
مسند کی روایت میں ہے کہ حمید نے اپنے استاد سے کہا: اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو استاد نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے میں نے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور امام صاحب رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح غریب فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي:3074، قال الشيخ الألباني:صحیح]
مستدرک میں اسے وارد کر کے کہا ہے کہ یہ شرط مسلم پر ہے اور صحیح ہے۔
خلال کہتے ہیں: ”اس کی سند صحیح ہے، اس میں کوئی علت نہیں۔“
ابن مردویہ میں بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن اس کی بھی سند صحیح نہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”صرف بقدر چھنگلی کے تجلی ہوئی تھی جس سے وہ مٹی کی طرح چور چور ہو گیا اور کلیم اللہ علیہ السلام بھی بےہوش ہو گئے۔“ کہتے ہیں: ”وہ پہاڑ دھنس گیا، سمندر میں چلا گیا اور موسیٰ علیہ السلام بےہوش ہو کر گر پڑے۔“
بعض بزرگ فرماتے ہیں: ”وہ پہاڑ اب قیامت تک ظاہر نہ ہو گا بلکہ زمین میں اترتا چلا جاتا ہے۔“
ایک حدیث میں ہے: اس تجلی سے چھ پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ گئے۔ جن میں سے تین مکے میں ہیں اور تین مدینے میں۔ احد، ورقان اور رضوی مدینے میں۔ حرا، ثبیر اور ثور مکے میں۔ [الخطیب:441/10:موضوع] لیکن یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے۔
کہتے ہیں کہ طور پر تجلی کے ظہور سے پہلے پہاڑ بالکل صاف تھے، اس کے بعد ان میں غار اور کھڈ اور شاخیں قائم ہو گئیں۔ جناب کلیم اللہ علیہ السلام کی آرزو کے جواب میں انکار ہوا اور پھر مزید تشفی کے لیے فرمایا گیا کہ میری ادنیٰ سی تجلی کی برداشت تجھ سے تو کیا، بہت زیادہ قوی مخلوق میں بھی نہیں۔
دیکھ پہاڑ کی جانب! خیال رکھ۔ پھر اس پر اپنی تجلی ڈالی جس سے پہاڑ جھک گیا اور موسیٰ بےہوش ہو گئے۔ صرف اللہ کی نظر نے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا اور وہ بالکل مٹی ہو کر ریت کا میدان ہو گیا۔
بعض قرأتوں میں اسی طرح ہے اور ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے: موسیٰ علیہ السلام کو غشی آ گئی، یہ ٹھیک نہیں کہ موت آ گئی۔ گو لغۃً یہ بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے «فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ»[39-الزمر:68] میں موت کے معنی ہیں۔ لیکن وہاں قرینہ موجود ہے جو اس لفظ سے اسی معنی کے ہونے کی تائید کرتا ہے اور یہاں کا قرینہ بےہوشی کی تائید کرتا ہے۔ کیونکہ آگے فرمان ہے «فَلَمَّا أَفَاقَ» ظاہر ہے کہ افاقہ بیہوشی سے ہوتا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام ہوش میں آتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور تعظیم و جلال بیان فرمانے لگے کہ واقعی وہ ایسا ہی ہے کہ کوئی زندہ اس کے جمال کی تاب نہیں لا سکتا۔
پھر اپنے سوال سے توبہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سب بنی اسرائیل سے پہلے میں ایمان لانے والا بنتا ہوں۔ میں اس پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں کہ واقعی کوئی زندہ آنکھ تجھے دیکھ نہیں سکتی۔
یہ مطلب نہیں کہ آپ سے پہلے کوئی مومن ہی نہ تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ کا دیدار زندوں کے لیے نا ممکن ہے۔ اس فرمان کو سنتے ہی سب سے پہلے ماننے والا میں ہوں کہ واقعی مخلوق میں سے کوئی قیامت تک اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔
ابن جریر میں اس آیت کی تفسیر میں محمد بن اسحاق بن یسار کی روایت سے ایک عجیب و غریب مطول اثر نقل کیا گیا ہے۔ عجب نہیں کہ یہ اسرائیلی روایتوں میں سے ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک یہودی کو کسی نے ایک تھپڑ مارا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لایا کہ آپ کے فلاں انصاری نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ آپ نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا۔ اس نے کہا: سچ ہے۔ وجہ یہ ہوئی کہ یہ کہہ رہا تھا، اس اللہ کی قسم ہے جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہاں پر فضیلت دی تو میں نے کہا: کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی؟ اور غصے میں آ کر میں نے اسے تھپڑ مار دیا۔ آپ نے فرمایا: سنو! نبیوں کے درمیان تم مجھے فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت میں سب بےہوش ہوں گے۔ سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ تھامے ہوئے ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہوا؟
یا طور کی بےہوشی کے بدلے یہاں بےہوش ہی نہیں ہوئے؟ [صحیح بخاری:4638]
یہ حدیث بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور مسلم شریف میں بھی ہے اور ابوداؤد میں بھی ہے۔
بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا جھگڑا ہو گیا۔ اس پر مسلمان نے کہا: اس کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان پر فضیلت دی اور یہودی نے کہا: اس کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان پر فضیلت دی۔ اس پر مسلمان نے اسے تھپڑ مارا۔ اس روایت میں ہے کہ شاید موسیٰ علیہ السلام ان میں سے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے بےہوشی سے استثنا کر لیا۔ [صحیح بخاری:3408]
حافظ ابوبکر ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ یہ تھپڑ مارنے والے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ لیکن بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہ کوئی انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ یہی زیادہ صحیح اور زیادہ صریح ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اس حدیث میں یہ فرمان کہ تم نبیوں کے درمیان مجھے فضیلت نہ دو ایسا ہی ہے جیسے اور حدیث میں بھی فرمان ہے کہ نبیوں میں مجھے فضیلت نہ دو۔ نہ یونس بن متی علیہ السلام پر فضیلت دو۔ [صحیح بخاری:3412-3414]
یہ فرمان بطور تواضع کے ہے یا یہ فرمان اس سے پہلے ہے کہ آپ کو اپنی فضیلت کا علم اللہ کی طرف سے ہوا ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ غصے میں آ کر یا تعصب کی بنا پر مجھے فضیلت نہ دو یا یہ کہ صرف اپنی رائے سے میری فضیلت قائم نہ کرو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
لوگ قیامت کے دن بےہوش ہوں گے۔ یہ بےہوشی میدان قیامت کی بعض ہولناکیوں کی وجہ سے ہو گی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
بہت ممکن ہے، یہ اس وقت کا حال ہو جب مالک الملک تبارک و تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرنے کے لئے تشریف لائے گا تو اس کی تجلی سے لوگ بےہوش ہو جائیں گے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام اللہ کے جمال کی برداشت کو طور پہاڑ پر نہ لا سکے۔
اسی لیے آپ کا فرمان ہے کہ نہ معلوم مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہوا یا طور کی بےہوشی کے بدلے یہاں بےہوش نہ ہوئے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ اپنی کتاب الشفاء کے شروع میں لکھتے ہیں کہ دیدار الٰہی کی اس تجلی کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام اس چیونٹی کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے جو دس فرسخ دور رات کے اندھیرے میں کسی پتھر پر چل رہی ہو۔ [الدر المنشور للسیوطی:222/3:ضعیف]
اور بہت ممکن ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں سے جن کا ہم نے ذکر کیا، معراج کے واقعہ کے بعد مخصوص ہوئے ہوں اور آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا قاضی صاحب کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے حالانکہ اس کی سند غور طلب ہے۔ اس میں مجہول راوی ہیں اور ایسی باتیں جب تک ثقہ راویوں کے سلسلے سے نہ ثابت ہوں، قابل قبول نہیں ہوتیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔