(آیت 15) فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ:” الْوَاقِعَةُ “ واقع ہونے والی۔ یعنی قیامت کے منکروں کا دنیا میں انجام ذکر کرنے کے بعد اب اس کے واقع ہونے کی کیفیت بیان ہوتی ہے کہ صور میں اچانک ایک پھونک ماری جائے گی، اس کے ساتھ ہی زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی بار ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا اور تمام زندہ لوگ مر کر گر جائیں گے۔ یہ واقعہ یک لخت ہو گا، اس کے وقت کا کسی کو بھی علم نہیں، حتیٰ کہ صور میں پھونکنے والے کو بھی نہیں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْأُذُنَ مَتٰی يُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَيَنْفُخُ ][ ترمذي، صفۃ القیامۃ والرقائق، باب ماجاء في شأن الصور: ۲۴۳۱، و صححہ الألباني، أنظر صحیح الجامع الصغیر: ۴۵۹۲]”میں کیسے خوش حال ہو کر رہوں جب کہ صور والا (فرشتہ) صور منہ میں لیے ہوئے اور کان لگائے ہوئے ہے (اور پیشانی جھکا کر انتظار کر رہا ہے) کہ اسے صور میں پھونکنے کا حکم کب ہوتا ہے، تو وہ (صور میں) پھونکے۔“