(آیت 10،9)وَ جَآءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهٗ …: ” الْمُؤْتَفِكٰتُ “”اِئْتَكَفَ“(افتعال) سے اسم فاعل ہے اور محذوف لفظ ”اَلْقُرٰي“(بستیوں) کی صفت ہے، یعنی الٹ جانے والی بستیاں۔ مراد لوط علیہ السلام کی قوم کی بستیاں ہیں جن کا اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا اوپر کر دیا گیا اور پھر ان پر کھنگر کے پتھروں کی بارش برسا دی گئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۷۷ تا ۸۳) اور سورۂ حجر (۶۱تا۷۴)۔ ”اَلْخَاطِئَةُ“” عَافِيَهٌ“ کے وزن پر مصدر ہے، گناہ، خطا۔ ” رَابِيَةً “”رَبَا يَرْبُوْ“(ن)(زیادہ ہونا، بڑھنا) سے اسم فاعل ہے، یعنی وہ گرفت اپنی شدت میں دوسری گرفتوں سے بہت بڑھی ہوئی تھی، یعنی فرعون نے اور اس سے پہلے کے لوگوں نے اور قوم لوط نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی سخت گرفت میں پکڑ لیا۔ گناہ کیا تھا؟ یہ کہ ” فَعَصَوْا رَسُوْلَ رَبِّهِمْ “ انھوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کری۔