(آیت 17) ➊ اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ …: اہل مکہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ تمام لوگ حج کے لیے ان کے پاس آتے اور اپنی ضروریات کے لیے ان کے گاہک بنتے تھے، وہ جہاں جاتے اہلِ حرم ہونے کی وجہ سے انھیں کوئی کچھ نہ کہتا۔ ہر قسم کا میوہ ان کے شہر پہنچ جاتا، ان کی تجارت خوب چمکی ہوئی تھی اور وہ نہایت مال دار اور مکمل امن کی نعمت سے بہرہ ور تھے۔ ان نعمتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ انعام بھی کیا کہ ان میں اپنا آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمایا، مگر انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا دیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ چلے جانے کے بعد قریش نے آپ کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس سے وہ خود بھی غیر محفوظ ہو گئے اور ان کی تجارت بھی برباد ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے ان پر قحط مسلط ہو گیا، یہاں تک کہ وہ مردار تک کھا گئے۔ [ دیکھیے بخاري: ۴۸۲۱، ۴۸۰۹ ] اللہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ کی اس حالت کا ذکر ان آیات میں بھی بیان کیا ہے: «وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ (112) وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ» [ النحل: ۱۱۲، ۱۱۳ ]”اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اور بلاشبہ یقینا ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو انھیں عذاب نے اس حال میں آپکڑا کہ وہ ظالم تھے۔“
یہاں اہلِ مکہ کی نا شکری اور اس پر سزا کے لیے بطور مثال ایک باغ والوں کا قصہ بیان کیا اور فرمایا: «اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ» ”بے شک ہم نے مکذبین کو نعمت دے کر آزمایا جس طرح باغ والوں کو نعمت دے کر آزمایا تھا۔“یہ چند بھائی تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بہت شاندار باغ عطا فرمایا تھا، مگر بجائے اس کے کہ وہ اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ نکالتے، انھوں نے قسم کھالی کہ صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے، کسی مسکین کو نہ آنے دیں گے اور نہ انھیں کچھ دیں گے، مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے جانے سے پہلے ہی آگ لگنے یا کسی اور آسمانی آفت سے باغ برباد ہو گیا۔ صبح گئے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔
➋ ” بَلَوْنٰهُمْ “”بَلَا يَبْلُوْ“(ن) آزمانا، مصیبت میں مبتلا کرنا، انعام کرنا۔ ” لَيَصْرِمُنَّهَا“”صَرَمَ يَصْرِمُ“(ض) کاٹنا، کٹنا۔ ”صَرِيْمٌ“ کٹا ہوا۔ یہ باغ کہاں تھا اور باغ والے کون تھے؟ قرآن نے ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ قرآن واقعات کو بطور تاریخ نہیں بلکہ بطور عبرت بیان کرتا ہے اور اس کے لیے نفس واقعہ ہی کافی ہے۔ اس مقام پر سورۂ کہف کی آیات (۳۲ تا ۴۴) بھی دیکھ لیں، وہاں بھی عبرت دلانے کے لیے دو باغ رکھنے والے کی مثال بیان کی گئی ہے۔