(آیت 6،5) فَسَتُبْصِرُ وَ يُبْصِرُوْنَ …: آپ کے خلق عظیم کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے مجنون کہنے اور دوسری تکلیف دہ باتوں پر صبر کریں۔ ”جلد ہی “سے مراد وہ مواقع ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف طریقوں سے مدد کی، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آخر کار آپ کے جانی دشمن فوج در فوج آپ پر ایمان لا کر آپ کے جاں نثار دوست بن گئے اور جو مخالف رہے وہ بدر و احد اور خندق و فتح مکہ وغیرہ میں مردار ہوئے یا ذلیل و خوار ہوئے اور تمام جزیرۃ عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہو گئی۔ پھر قیامت تک آپ کی امت کے ہاتھوں ہونے والی فتوحات اور اسلام کی سر بلندی سے بھی واضح ہو گیا کہ پاگل کون تھا؟ اس کے علاوہ ”جلد ہی“ سے مراد قیامت کا دن بھی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ محمود پر تشریف فرما ہوں گے، آپ کے ہاتھ میں ” لِوَاءُ الْحَمْدِ“(حمد کا جھنڈا) ہوگا اور جب آپ حوض پر اپنے امتیوں کو پانی پلا رہے ہوں گے اور آپ کو جھٹلانے والے مجرم جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے، تب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی کہ دیوانہ کون ہے؟