(آیت 9،8)وَ كَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ …: ” عَتَتْ “”عَتَا يَعْتُوْ عُتُوًّا“(ن) سے ماضی معلوم ہے، اصل میں ”عَتَوَتْ“ ہے۔ ” نُكْرًا “ اجنبی، نہ پہچانا ہوا، جو نہ دیکھا ہو نہ سنا۔ اب تک اللہ تعالیٰ نے طلاق وغیرہ کے متعلق اپنے احکام کا ذکر فرمایا تھا، یہاں سے بتایا جا رہا ہے کہ پچھلی جن بستیوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کے احکام سے سرکشی اختیار کی ان کا انجام کیا ہوا۔ مقصد مسلمانوں کو ان احکام کی اہمیت بتانا اور ان کی پابندی کی تلقین کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی اقوام کی بربادی میں شرک و کفر کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کے ان تفصیلی احکام کی مخالفت بھی تھی جو زندگی کے ہر شعبے میں انھوں نے دیے، جس کی وجہ سے ان کے اندر حد سے بڑھی ہوئی سرکشی اور فساد پیدا ہوا۔ مثلاً جب انھوں نے شرک و کفر پر اصرار کے ساتھ نکاح و طلاق کے ضابطوں کی پابندی سے سرکشی اختیار کی تو زنا اور قوم لوط کا عمل عام ہوا، جس کی وجہ سے قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا بہت سخت محاسبہ کیا اور انھیں ایسی سزا دی جو کسی نے نہ دیکھی تھی نہ سنی تھی۔ آج کے دور میں کفار نے شرک و کفر پر اصرار کے ساتھ ساتھ ان ضابطوں کی بھی شدید مخالفت اختیار کر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں ان کا معاشرہ بے پناہ بداخلاقی، بدامنی اور قتل و غارت کا شکار ہو چکا ہے اور بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ اب ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلمان بھی ان احکام سے آزاد ہو جائیں اور ان میں بھی زنا، قوم لوط کا عمل اور قتل و غارت پھیل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کے عذاب کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایا ہے۔