سورۂ تغابن میں بیویوں کے ساتھ رہن سہن میں کشادہ دلی اور عفو و درگزر کے ساتھ مدارات اور گزارا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، لیکن اگر میاں بیوی کا اختلاف حد سے بڑھ جائے اور گزارے کی کوئی صورت نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کی بھی اجازت دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح زنا کو حرام قرار دینا اور نکاح کا حکم دینا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، کیونکہ اس سے نسب اور نسل کی حفاظت ہوتی ہے اور معاشرے میں فسق و فجور اور قتل و غارت کے بجائے پاکیزگی اور امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے، اسی طرح زوجین میں موافقت نہ رہے تو مرد کو طلاق کی اور عورت کو خلع کی اجازت بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے، جس سے وہ ایسی زندگی سے نکل آتے ہیں جو ہر لمحہ ان کے لیے شدید اذیت کا باعث تھی اور دونوں کو نیا نکاح کر کے آئندہ کے لیے خوشگوار زندگی گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے سے جدا ہونے والے مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو اپنی وسعت کے ساتھ غنی کر دینے کا وعدہ فرمایا ہے اور اسے اپنی وسعت و حکمت کا ایک مظہر قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ وَ كَانَ اللّٰهُ وَاسِعًا حَكِيْمًا» [ النساء: ۱۳۰ ]”اور اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی کر دے گا اور اللہ ہمیشہ سے وسعت والا، کمال حکمت والا ہے۔“ جن اقوام نے طلاق پر پابندی لگائی اور اسے ناجائز قرار دیا ہے یا اس پر نامناسب پابندیاں لگائی ہیں، مثلاً یہ کہ طلاق دینے والا مرد ساری عمر اپنی مطلقہ کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوگا وغیرہ، انھوں نے ایک دوسرے سے موافقت نہ رکھنے والے میاں بیوی پر شدید ظلم کیا ہے اور ساری عمر ان پر دل کی اس خوشی کا دروازہ بند کر دیا ہے جو میاں بیوی کو نکاح سے حاصل ہوتی ہے۔ کفار کے اس اقدام کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے نکاح کرنا ہی چھوڑ دیا، کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکیں گے، یا جدا ہوئے تو انھیں ناقابل برداشت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ان میں کم ہی کوئی نکاح کرتا ہے، مردوں اور عورتوں کی اکثریت نکاح کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر حرام اولاد کو جنم دے رہی ہے اور جس کا دوسرے سے دل بھر جاتا ہے وہ اسے چھوڑ کر آگے روانہ ہو جاتا ہے۔
طلاق صرف ایک دوسرے سے جدا ہونے کا ذریعہ نہیں بلکہ میاں بیوی کے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کا آخری ذریعہ بھی ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے مقرر کر دہ طریقے کے مطابق طلاق دی جائے تو عدت کی صورت میں مرد کے پاس رجوع کا اور عورت کے پاس خاوند کو منا لینے کا موقع موجود ہوتا ہے اور تین حیض یا وضع حمل تک ایک گھر میں اکٹھے رہنے کی وجہ سے امید ہوتی ہے کہ جدائی کا باعث بننے والی کشیدگی ختم ہو جائے اور وہ دونوں آپس میں صلح کر لیں۔ سورۂ طلاق کی پہلی آیت ” لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا “ میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح ہر کام میں ہمارے لیے نمونہ ہیں نکاح و طلاق میں بھی نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح بھی کیے ہیں اور بعض کو طلاق بھی دی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنت الجون کو ” أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْكَ “ کہنے پر طلاق دے دی۔ [ یکھیے بخاري، الطلاق، باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرأتہ بالطلاق؟: ۵۲۵۴ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے کر رجوع بھی کیا ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں: [ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا ][ أبو داوٗد، الطلاق، باب في المراجعۃ: ۲۲۸۳، وقال الألباني صحیح ]”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ(رضی اللہ عنھا) کو طلاق دے دی، پھر ان سے رجوع کر لیا۔“
(آیت 1) ➊ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ …: یہاں ایک سوال ہے کہ پہلے ” يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ “ کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا، پھر ” اِذَا طَلَّقْتُمْ“ میں جمع کے صیغے کے ساتھ خطاب کیوں کیا گیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ چونکہ طلاق کے احکام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت دونوں مشترک ہیں، اس لیے آپ کو اور آپ کی امت دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے ” اِذَا طَلَّقْتُمْ“ فرمایا، مگر پہلے خاص طور پر آپ کو خطاب آپ کی تعظیم کے لیے ہے، جیسے کسی قوم کے سردار سے کہا جاتا ہے، اے فلاں! تم ایسا کرو، یعنی تم اور تمھاری قوم ایسا کرو۔ گویا یوں فرمایا کہ اے نبی! جب تم لوگ طلاق دو، یعنی آپ اور آپ کی امت طلاق دے۔
➋ ” اِذَا طَلَّقْتُمْ“(جب تم طلاق دو) سے مراد یہ ہے کہ جب تم طلاق کا ارادہ کرو، جیسا کہ سورۂ مائدہ کی آیت (۶)” اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ “ میں ہے۔
➌ ” النِّسَآءَ “ سے مراد صرف وہ عورتیں ہیں جن کے ساتھ نکاح کے بعد دخول ہو چکا ہو، کیونکہ جن عورتوں کو دخول سے پہلے طلاق دے دی جائے ان کی کوئی عدت نہیں۔ (دیکھیے سورۂ احزاب: ۴۹)۔
➍ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ: جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو یہ نہیں کہ جب چاہو طلاق دے دو، بلکہ ان کی عدت کے وقت طلاق دو، یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو تو طہر کی حالت میں جماع کے بغیر طلاق دو، تاکہ اس کی عدت کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری ہو، کیونکہ اگر تم حالت حیض میں طلاق دوگے تو اگر اس حیض کو عدت میں شمار کرو تو عدت تین حیض سے کم رہ جائے گی اور اگر شمار نہ کرو تو تین حیض سے زیادہ ہو جائے گی، کیونکہ بعد میں آنے والے تین حیضوں کے ساتھ اس حیض کے وہ ایام بھی شامل ہوں گے جو طلاق کے بعد باقی ہوں گے۔ اسی طرح اگر تم انھیں ایسے طہر میں طلاق دو گے جس میں ان کے ساتھ جماع کیا ہے تو ممکن ہے کہ حمل قرار پا جائے، اس صورت میں معلوم نہیں ہو سکے گا کہ اس کی عدت کے لیے تین حیض کا اعتبار ہو گا یا وضع حمل کا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی جب وہ حیض کی حالت میں تھی، عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتّٰی تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيْضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِيْ أَمَرَ اللّٰهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ ][ بخاري، الطلاق، باب قول اللّٰہ تعالٰی: «یا أیھا النبي…»: ۵۲۵۱ ]”اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر چاہے تو اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے تو چھونے سے پہلے طلاق دے دے، کیونکہ یہ ہے وہ عدت جس کے وقت اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔“ اگر عورت حاملہ ہو تو اسے کسی بھی وقت طلاق دی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کی عدت وضع حمل معلوم اور واضح ہے، جیسا کہ آگے ” وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ “ میں آرہا ہے۔
➎ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے لیے یہ وقت اس لیے مقرر فرمایا ہے کہ جہاں تک ہو سکے میاں بیوی کا تعلق قائم رہے، اگر کبھی آدمی کو غصہ آئے تو فوراً طلاق نہ دے بلکہ اس وقت کا انتظار کرے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اتنی دیر میں غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور حیض سے فراغت کے بعد خاوند کو بیوی کی طرف جو رغبت ہوتی ہے وہ طلاق سے باز رکھنے کا باعث ہوگی۔ اسی طرح حمل کی حالت خاوند کو طلاق سے روکنے کا باعث ہے، کیونکہ آنے والے مہمان کی امید اسے اس اقدام سے باز رکھنے والی ہے۔ ان دونوں وقتوں میں طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ طلاق کسی وقتی اشتعال کی وجہ سے نہیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر دی جا رہی ہے، اس کے بعد عدت کی صورت میں ایک خاصی مدت تک دونوں کو ایک گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا، ہو سکتا ہے کہ ان کا تعلق باقی رہنے کی کوئی صورت نکل آئے۔ افسوس! مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پروا ہی نہیں کی، (الاّما شاء اللہ) حالانکہ اگر وہ طلاق کے لیے اس وقت کا انتظار کرتے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے تو طلاق کی نوبت ہی بہت کم آتی، پھر عدت کی برکت سے دوبارہ رجوع کی بھی بہت امید تھی۔
➏ ایک وقت میں صرف ایک طلاق دینا ہی جائز ہے، اس سے زیادہ دینا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاقیں دے دے تو صرف ایک طلاق ہوگی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (230،229)کی تفسیر۔
➐ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ: ”أَحْصٰي يُحْصِيْ“ اچھی طرح شمار کرنا، گننا۔ یہ ”حَصًي“(کنکریاں) سے مشتق ہے۔ عرب اُمی تھے، جب انھیں ایسی چیز گننا ہوتی جو تعداد میں زیادہ ہوتی تو ہر ایک کے لیے ایک کنکری رکھتے جاتے، آخر میں کنکریوں کو گن لیتے۔ ” الْعِدَّةَ “(بروزن فِعْلَةٌ) بمعنی ”مَعْدُوْدٌ“ ہے، گنے ہوئے دن، جیسے ”طِحْنٌ“ بمعنی ”مَطْحُوْنٌ“(پسا ہوا آٹا) ہے۔ یعنی وہ دن جن کے گزر جانے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح حلال ہو جاتا ہے۔ اس پر ”الف لام“ عہد کا ہے، یعنی وہ عدت جو دوسری آیات میں بتائی گئی ہے۔ (دیکھیے بقرہ: ۲۲۸۔ طلاق: ۴) عدت کو اچھی طرح گننے کا حکم اس لیے دیا کہ ایسا نہ ہو کہ عدت گزرنے کے بعد بھی تم رجوع کر لو یا عدت گزرنے سے پہلے عورت کسی اور مرد سے نکاح کر لے، جب کہ یہ دونوں کام ناجائز ہیں۔
➑ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ: ذاتی نام ” اللّٰهَ “ اور وصفی نام ”رَبٌّ“ کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے، جو ہر لمحے انسان کی پرورش کر رہا ہے، ڈرنے کا حکم دیا، یعنی ان ایام میں طلاق دینے سے اللہ سے ڈرتے رہو جن میں طلاق دینا ممنوع ہے، کیونکہ اس میں اللہ کی نافرمانی بھی ہے اور عورت کو اذیت رسانی بھی۔ اسی طرح عدت کے ایام میں عورتوں کو گھروں سے نکالنے سے بھی ڈرو۔
➒ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَ لَا يَخْرُجْنَ: ” بُيُوْتِهِنَّ “ سے مراد خاوندوں کے گھر ہیں جن میں عورتیں رہ رہی ہیں، ان میں رہنے کی وجہ سے انھیں ان کے گھر فرمایا ہے۔ یعنی عورت کے لیے عدت کے ایام خاوند کے گھر میں گزارنا ضروری ہے، نہ خاوندوں کو انھیں ان کے گھروں سے نکالنے کی اجازت ہے نہ انھیں خود ان سے نکل جانے کی۔ اس کی حکمت آگے ” لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا “ میں بیان فرمائی کہ اتنی مدت ایک گھر میں اکٹھے رہنے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی باہمی صلح اور رجوع کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔ اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے اسی وقت الگ ہو گئے اور ملاقات کا موقع ہی نہ رہا تو رجوع کا معاملہ بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا خوف دلا کر نہایت تاکید کے ساتھ یہ حکم دیا ہے، مگر مسلمانوں نے کم ہی اس کی پروا کی ہے، شاید ہی کوئی ایسا مرد ہو جو طلاق کے بعد عورت کو اپنے گھر میں رہنے دے یا کوئی ایسی عورت ہو جو وہاں رہے۔
➓ اِلَّاۤ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ: ” فَاحِشَةٌ “ کوئی بھی قول یا فعل جس میں بہت بڑی قباحت ہو۔ ” مُبَيِّنَةٍ “ کھلی اور واضح۔ ” بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ “ میں زنا، چوری وغیرہ کے علاوہ عورت کا خاوند سے یا اس کے اہلِ خانہ سے بدزبانی اور گالی گلوچ کرنا بھی شامل ہے۔ طبری نے محمد بن ابراہیم کی حسن سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل فرمایا ہے، انھوں نے فرمایا: [ اَلْفَاحِشَةُ أَنْ تَبْذُؤَ عَلٰی أَهْلِهَا ]”فاحشہ یہ ہے کہ گھر والوں پر زبان درازی کرے۔“
⓫ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ وَ مَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ: یعنی وہ مرد جو عورت کو اس وقت طلاق دیتا ہے جب طلاق دینے کا وقت نہیں، یا عدت میں عورت کو گھر سے نکال دیتا ہے، یا وہ عورت جو خود ہی نکل جاتی ہے، یہ نہ سمجھیں کہ وہ معمولی خطا کر رہے ہیں، بلکہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں پھلانگ رہے ہیں اور جو اللہ کی حدیں پھلانگتا ہے یقینا وہ اپنی جان پر ظلم کر رہا ہے۔
⓬ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا: یعنی طلاق کے بعد عورت کو عدت کے دوران خاوند کے گھر میں رہنے کا حکم اس لیے ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد ان کی باہمی موافقت کی کوئی صورت پیدا فرما دے اور خاوند اس سے رجوع کر لے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خاوند کے گھر میں رہ کر عدت گزارنے کا حکم اس طلاق میں ہے جس سے رجوع ہو سکتا ہو اور وہ صرف پہلی اور دوسری طلاق ہے، ان دونوں کو رجعی طلاق کہتے ہیں، ان کی عدت کے دوران عورت کی رہائش اور نفقہ خاوند کے ذمے ہے۔ رہی تیسری طلاق کی عدت، تو اگرچہ عورت اس کے دوران آگے نکاح نہیں کر سکتی مگر خاوند رجوع بھی نہیں کر سکتا، اس لیے اس کے دوران اس کی رہائش نہ صرف یہ کہ خاوند کے ذمے نہیں بلکہ اس کا خاوند کے ساتھ اس کے گھر میں رہنا ہی ٹھیک نہیں، کیونکہ اس میں سابقہ بے تکلفی کی وجہ سے ان کے حد سے تجاوز کا خطرہ ہے جب کہ وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں، جیسا کہ فرمایا: «فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ»[ البقرۃ: ۲۳۰ ]”پھر اگر وہ اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے۔“ اگرچہ بہت سے ائمہ نے اس کی رہائش خاوند کے ذمے قرار دی ہے، مگر اس آیت کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مطابق تیسری طلاق کے بعد اس کی رہائش خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: [ أَنَّهُ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا فِيْ عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ كَانَ أَنْفَقَ عَلَيْهَا نَفَقَةَ دُوْنٍ، فَلَمَّا رَأَتْ ذٰلِكَ قَالَتْ وَاللّٰهِ! لَأُعْلِمَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ كَانَ لِيْ نَفَقَةٌ أَخَذْتُ الَّذِيْ يُصْلِحُنِيْ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لِيْ نَفَقَةٌ لَمْ آخُذْ مِنْهُ شَيْئًا، قَالَتْ فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا نَفَقَةَ لَكِ وَلَا سُكْنٰي ][مسلم، الطلاق، باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لہا: ۳۷ /۱۴۸۰ ]”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان کے خاوند نے انھیں طلاق دے دی اور انھیں معمولی خرچہ دیا۔ جب انھوں نے یہ دیکھا تو کہا: ”اللہ کی قسم! میں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں لاؤں گی، پھر اگر میرے لیے خرچہ ہوا تو اتنا لوں گی جو میری حالت درست رکھ سکے اور اگر میرے لیے خرچہ نہ ہوا تو میں اس سے کچھ بھی نہیں لوں گی۔“ فرماتی ہیں، میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لیے نہ خرچہ ہے نہ رہائش۔“ یاد رہے کہ صحیح مسلم کے اسی باب کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ ان کے خاوند نے انھیں تیسری طلاق دے دی تھی۔