(آیت 9) ➊ يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ: یہ” لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ “ کا ظرف ہے، قیامت کے دن کو” يَوْمُ الْجَمْعِ “ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دن تمام پہلے اور پچھلے ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے۔ (دیکھیے ہود: ۱۰۳۔ صافات: 50،49۔ شوریٰ: ۷۔ مرسلات: ۳۸)”يَوْمُ الْجَمْعِ“ کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس دن انسان کے جسم کی ہر ہڈی اور ہر ذرّہ جو منتشر ہوچکا ہوگا جمع کر دیا جائے گا، جیساکہ فرمایا: «اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ»[ القیامۃ: ۳ ]”کیا انسان گمان کرتا ہے کہ ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔“
➋ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ: ”غَبَنَ“(ن)”فُلَانًا فِي الْبَيْعِ“ بیع میں دوسرے کو نقصان پہنچا کر خود فائدہ حاصل کرلینا۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے، انھوں نے ” ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ “ کے متعلق فرمایا: [هُوَ اسْمٌ مِّنْ أَسْمَاءِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَذٰلِكَ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَغْبُنُوْنَ أَهْلَ النَّارِ ]” یعنی یوم التغابن قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ نام اس لیے ہے کہ اس دن جنتی جہنمیوں کو نقصان میں رکھ کر خود فائدہ حاصل کریں گے۔“ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس نفع و نقصان کی تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے آگے بیان فرما دی ہے کہ ایمان اور عمل صالح والوں کو کیا حاصل ہو گا اور کفر و تکذیب والوں کے حصے میں کیا آئے گا۔
➌ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ يَعْمَلْ صَالِحًا …: یہ اس دن کی ہار جیت میں سے جیت والوں کے حصے کا بیان ہے۔