(آیت 7) ➊ زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا: ” زَعَمَ “ کا لفظ گمان کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے، کسی بات کا دعویٰ کرنے کے معنی میں بھی اور جھوٹ کہنے کے معنی میں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کا دعویٰ حرف تاکید ” لَنْ “ کے ساتھ ذکر فرمایا، مگر یہ دعویٰ کرنے کو زعم قرار دیا۔ گویا ان کا تاکید کے ساتھ کہنا کہ انھیں ہر گز اٹھایا نہیں جائے گا، سراسر گمان اور جھوٹ ہے۔ گمان اس لیے کہ ان کے پاس کوئی ایسا ذریعۂ علم نہیں جس کی بنیاد پر وہ یقین سے کہہ سکیں کہ دوبارہ زندگی نہیں ہوسکتی۔ انسان کے پاس ایسا ذریعۂ علم نہ کبھی آج سے پہلے تھا، نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ ہو سکتا ہے، پھر اس دعویٰ کو اس زور شور سے بیان کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ انسان زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے اور نہ اٹھنے کے دونوں احتمال موجود ہیں، لیکن جی اٹھنے کی تردید میں وہ کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتا۔
➋ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ: یعنی جب وہ محض گمان کی بنیاد پر اتنی تاکید کے ساتھ قیامت کا انکار کر رہے ہیں تو آپ ان کے ردّ میں اس سے زیادہ تاکید کے ساتھ کہیں کہ میں تمھارے اس دعوے کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے وحی کے علم کی بنیاد پر پورے یقین کے ساتھ اپنے رب کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب مانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قسم کے ساتھ یہ بات کہنے کا حکم دیا، تاکہ انھیں اس کا یقین ہو جائے، کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ قسم کھا کر بات کی جائے تو اسے یقین ہو جاتا ہے۔یہ تیسری جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم کھا کر قیامت کا یقین دلانے کا حکم دیا ہے۔ پہلے سورۂ یونس میں فرمایا: «وَ يَسْتَنْۢبِـُٔوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ اِيْ وَ رَبِّيْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ» [ یونس: ۵۳ ]” اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ سچ ہی ہے؟ تو کہہ ہاں! مجھے اپنے رب کی قسم! یقینا یہ ضرور سچ ہے اور تم ہر گز عاجز کرنے والے نہیں ہو۔“ پھر سورۂ سبا میں فرمایا: «وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ»[ سبا: ۳ ]”اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ کہہ دے کیوں نہیں، قسم ہے میرے رب کی! وہ تم پر ضرور ہی آئے گی۔ “
➌ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ: اس میں دوبارہ زندہ کیے جانے کا مقصد بیان فرمایا کہ ساری کائنات کو تمھارے فائدے کے لیے مسخر کرنے اور تمھیں ایمان و کفرمیں اختیار دینے کے بعد یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم سے کوئی بازپرس ہی نہ کی جائے؟ اس لیے اٹھائے جانے کے بعد تمھیں وہ سب کچھ ضرور بالضرور بتایا جائے گا جو تم نے کیا۔ بتانے سے مراد محاسبہ اور سزا دینا ہے، جیسا کہ دھمکی دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ میں بہت جلد تمھیں بتاؤں گا کہ تم نے کیا کیا۔
➍ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ: یعنی تمھیں دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان اور بالکل معمولی بات ہے، کیونکہ جس نے تمھیں پہلی دفعہ بنا لیا اس کے لیے دوبارہ بنا لینا تو زیادہ آسان ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ یٰس (79،78)، لقمان(۲۸) اور سورۂ روم (۲۷)کی تفسیر۔ کفارِ مکہ جیسا کہ متعدد آیات سے ظاہر ہے، اس بات کے قائل تھے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے۔