(آیت 3) ➊ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ: حق سے مراد یہاں حکمت و مصلحت ہے اور ان کی پیدائش کی بے شمار حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی ا للہ تعالیٰ نے ایسی تمام چیزیں پیدا فرما دیں جو انسان کی بقا کے لیے ضروری تھیں اور انھیں انسان کی خدمت پر مامور کر دیا، جیسا کہ فرمایا: «هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا» [البقرۃ: ۲۹ ]”وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب تمھارے لیے پیدا کیا۔“ مزید دیکھیے سورۂ زمر (۵)۔
➋ وَ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ: اللہ تعالیٰ نے جو چیز پیدا فرمائی اچھی پیدا فرمائی۔ (دیکھیے سجدہ: ۷) یہاں فرمایا کہ اس نے تمھاری صورت بنائی تو تمھاری صورتیں اچھی بنائیں۔ (دیکھیے مومن: ۶۴۔ انفطار: ۶ تا ۸) دوسری جگہ فرمایا کہ ہم نے انسان کو (اچھی ہی نہیں بلکہ) سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا فرمایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ» [ التین: ۴ ]”بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔ “ ظاہری شکل و صورت میں بھی اور ذہنی اور عقلی استعداد کے لحاظ سے بھی انسان کو بہترین بناوٹ عطا ہوئی ہے، کسی دوسری مخلوق میں ایسی عقلی استعداد نہیں ہے۔ کوئی انسان کتنا بھی بدصورت ہو، کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے کسی اور مخلوق کی شکل میں تبدیل کر دیا جائے، خواہ وہ کتنی خوبصورت ہو۔
➌ وَ اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ: یعنی ساری کائنات کی پیدائش خصوصاً انسان کو اتنی بہترین بناوٹ میں پیدا کرنا بے مقصد نہیں بلکہ تمھاری آزمائش کے لیے ہے، جیسا کہ فرمایا: «لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا» [ ہود: ۷ ]”تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔“ اور اس کے لیے تمھیں مرنے کے بعد قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو کر اس کی طرف واپس جانا ہے۔