(آیت 3) ➊ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا:” ذٰلِكَ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا مومن ہونے کی جھوٹی قسمیں کھانا اور اللہ کی راہ سے روکنا وغیرہ اس لیے ہے کہ وہ ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا۔ ایمان لا کر کفر تین طرح سے ہے، ایک یہ کہ وہ ظاہر میں ایمان لائے اور مسلمان ہوگئے مگر دل میں کافر ہی رہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے پاس آئے تو ایمان کی شہادت دی، پھر کفار کے پاس گئے تو انھیں اپنے کفر کا یقین دلایا، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ»[ البقرۃ: ۱۴ ]”اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کی طرف اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں۔“ منافقین کی اکثریت ایسی ہی تھی اور ایک یہ کہ ان میں سے بعض شروع میں تو صحیح ایمان لائے، پھر دنیوی اغراض کی وجہ سے کافر ہوگئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ منافقین میں سے جو لوگ تائب ہوئے اور ان کا اسلام خالص ہوا وہ اس گروہ سے تھے۔
➋ فَطُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ: یعنی ان کے ایمان لانے کے بعد کفر کرنے کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی تو وہ نہ دنیا اور آخرت میں نفاق کے نقصان کو سمجھتے ہیں نہ انھیں اس پر کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی توبہ کی توفیق ملتی ہے۔