(آیت 5) ➊ مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا …:” اَسْفَارًا “”سِفْرٌ“ کی جمع ہے، بڑی کتاب۔ ”سَفَرَ يَسْفُرُ“(ن)”اَلْكِتَابَ“ لکھنا۔ ”اَلسَّافِرُ أَيْ اَلْكَاتِبُ“ جمع اس کی ”سَفَرَةٌ“ ہے، جیسا کہ فرمایا: «بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ (15) كِرَامٍۭ بَرَرَةٍ» [ عبس: ۱۵،۱۶ ]”ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں۔جو معزز ہیں، نیک ہیں۔“
➋ بعض اہلِ علم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تین باتوں میں یہود کا ردّ فرمایا، انھوں نے فخر کیا کہ وہ اہلِ کتاب ہیں جب کہ عرب اُمی ہیں، تو اس کی تردید کرتے ہوئے انھیں اس گدھے کے ساتھ تشبیہ دی جو بڑی بڑی کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔ انھوں نے فخر کیا کہ وہ اللہ کے دوست اور محبوب ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ»[ الجمعۃ: ۶ ]”(اگر ایسا ہے) تو موت کی تمنا کرو۔ “ تیسرا یہ کہ ان کے ہاں ”سبت“(ہفتے کا دن)ہے جو مسلمانوں کے پاس نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یوم جمعہ کی صورت میں مسلمانوں پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا، جس سے یہود اپنی نادانی کی وجہسے محروم رہ گئے۔ (الکشاف)
➌ تورات کا بوجھ رکھا جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر عمل کی ذمہ داری ڈالی گئی، جیساکہ فرمایا: «اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ»[ الأحزاب:۷۲ ]”بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔“” ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا “ پھر انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا،یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے، اسی طرح وہ لوگ ہیں جن پر تورات کا بوجھ ڈالا گیا کہ اس پر عمل کریں، مگر انھوں نے پروا ہی نہیں کی کہ اس میں کیا ہے اور وہ ان سے کیا چاہتی ہے۔
➍ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ: اللہ کی آیات کو جھٹلانے سے مراد ان بشارتوں کو جھٹلانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازل فرمائیں۔ (دیکھیے اعراف: ۱۵۷)” بِئْسَ “ فعل ذم ہے، ” مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ “ اس کا فاعل ہے اور اس کا مخصوص بالذم محذوف ہے، یعنی ”هٰذَا الْمَثَلُ۔“ یعنی ان لوگوں کی یہ مثال جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا بری مثال ہے، جس کا مصداق ایمان والوں کو نہیں بننا چاہیے۔ جیسا کہ کسی مسلمان کو کتے کی مثال کا مصداق بھی نہیں بننا چاہیے کہ اس پر کتے کی مثال صادق آئے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ، الَّذِيْ يَعُوْدُ فِيْ هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَرْجِعُ فِيْ قَيْهٖ ][ بخاري، الھبۃ و فضلھا، باب لا یحل لأحد أن یرجع في ھبتہ وصدقتہ: ۲۶۲۲ ]”یہ بری مثال ہمارے لیے نہیں ہے، وہ شخص جو اپنے ہبہ میں لوٹتا ہے اس کتے کی ما نند ہے جو اپنی قے میں لوٹتا ہے۔“
➎ استاد محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”کیا وجہ ہے کہ ان علماء کا حال اس سے مختلف ہو جو قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں لیکن اس پرعمل نہیں کرتے، یا یہودیوں کی طرح ان کی من مانی تاویلیں کرتے ہیں۔“ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”یہود کے عالم ایسے تھے کتاب پڑھی اور دل میں کچھ اثر نہ ہوا، اللہ ہم کو پناہ دے۔ “(موضح)
➏ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ: یعنی جاننے کے باوجود نہ ماننا صریح ظلم ہے اور ایسے ظالموں کو اللہ بھی راہِ راست پر چلنے کی توفیق نہیں دیتا، کیونکہ نہ چاہنے والوں کو زبر دستی راہِ راست پر چلانا اس کا دستور نہیں۔