(آیت 4) ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ …: یعنی اُمیوں میں نبی مبعوث کرنا اور اسے بعد میں قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لیے رسول بنانا اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، وہ یہود یا کسی اور کی خواہش کا پابند نہیں کہ اسی کو اپنے فضل سے نوازے جسے وہ چاہیں اور نہ ہی یہ کسی کی محنت و کوشش پر موقوف ہے کہ کوئی ریاضت اور محنت کے ساتھ نبوت کا منصب حاصل کر لے، بلکہ یہ سراسر اللہ کے انتخاب اور اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ» [ الحج: ۷۵ ]”اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔“ اور فرمایا: «اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ» [ الأنعام: ۱۲۴ ]”اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔“ اور فرمایا: «وَ اللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ» [ البقرۃ: ۱۰۵ ]”اور اللہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔“