(آیت 5) ➊ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ …: قتال فی سبیل اللہ کی فضیلت کے ذکر اور اس سے گریز پر ملالت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم سے خطاب ذکر فرمایا، جس میں انھوں نے ان کی اس اذیت رسانی کا شکوہ اور اس پر ملامت کی جو انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ روا رکھی کہ جب وہ انھیں اپنے لیے اللہ کا رسول جانتے اور مانتے تھے تو ان پر لازم تھا کہ وہ ان کی تکریم کرتے، ان کی اطاعت کرتے اور ان کے ساتھ مل کر دشمنان اسلام سے جہاد کرتے، مگر انھوں نے ان کے ساتھ عام رویے میں، ان کے احکام کی تعمیل میں اور جہاد کے لیے نکلنے کے معاملے میں، غرض ہر طرح سے انھیں تکلیف پہنچائی۔ یہاں جس ایذا کی طرف خصوصاً اشارہ ہے اور جس کی وجہ سے انھیں موسیٰ علیہ السلام سے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ” الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ “ کا لقب ملا وہ ان کا جہاد کے لیے نکلنے سے صاف انکار ہے۔ مقصود مسلمانوں کو ان کا طریقہ اپنانے سے اجتناب کی تلقین ہے۔ تکریم و اطاعت کے معاملے میں ان کی ایذا کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ احزاب (۶۹) کی تفسیر اور جہاد کے لیے نکلنے سے ان کے صاف انکار کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۲۰ تا ۲۶) کی تفسیر۔
➋ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ: ” زَاغُوْا“”زَاغَ يَزِيْغُ زَيْغًا“(ض) ٹیڑھا ہونا۔ ” اَزَاغَ “ اس سے باب افعال ہے، ٹیڑھا کر دیا۔ یعنی جب وہ اطاعت کے بجائے ہر کام میں ٹیڑھے چلے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اسی راہ پر ڈال دیا، کیونکہ وہ ٹیڑھی راہ پر چلنے والوں کو زبردستی سیدھی راہ پر نہیں چلاتا، کیونکہ اس سے آزمائش کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى» [ النساء: ۱۱۵ ]”ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا۔“
➌ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ: جہاد سے انکار کی وجہ سے سورۂ مائدہ کی آیت (۲۵) میں موسیٰ علیہ السلام نے اور سورۂ مائدہ ہی کی آیت (۲۶) میں اللہ تعالیٰ نے قوم موسیٰ کو ” الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ “ کا خطاب دیا ہے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے علاوہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے منافقین سے بھی بہت اذیت پہنچی۔ زبانی اذیت کے علاوہ جہاد کے مواقع پر انھوں نے کئی دفعہ غداری کی، جنگ احد کے موقع پر عبد اللہ بن اُبی تین سو (۳۰۰) آدمیوں کو، جو لشکر کا تقریباً تیسرا حصہ تھے، عین میدان جنگ سے نکال کر لے گیا۔ جنگ خندق میں بھی انھوں نے کفار سے مل کر سازشوں میں اور مسلمانوں کی حوصلہ شکنی میں کوئی کمی نہیں کی۔ سورۂ آل عمران (۱۵۴ تا ۱۶۸) اور سورۂ احزاب (۹ تا ۲۰) میں اللہ تعالیٰ نے اس کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ زبانی اذیت کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (74،61،58)، احزاب (۵۷) اور منافقون (۸)۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے اعلان ہی سے کفار کی طرف سے مسلسل اور بے پناہ تکلیفیں پہنچیں، مگر اپنی جماعت میں شامل لوگوں کی طرف سے ایذا کا احساس زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دلائی ہے کہ اگر کچھ منافق قسم کے لوگ آپ کو تکلیف دیتے ہیں اور جہاد میں جانے سے پس و پیش کرتے ہیں تو آپ غم نہ کریں، آپ کے ساتھ تو پھر بھی جہاد کرنے والوں اور جان و مال قربان کرنے والوں کی عظیم جماعت موجود ہے، موسیٰ علیہ السلام کو تو اپنوں کی طرف سے اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی، ان کی قوم نے جہاد کے لیے نکلنے ہی سے صاف انکار کر دیا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم کیں تو ایک آدمی نے کہا: ”یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کے چہرے کا ارادہ نہیں کیا گیا۔“ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے حتیٰ کہ میں نے غصے کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک میں دیکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يَرْحَمُ اللّٰهُ مُوْسٰی لَقَدْ أُوْذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هٰذَا فَصَبَرَ ][ بخاري، الدعوات، باب قول اللّٰہ تبارک و تعالٰی: «وصل علیھم» …: ۶۳۳۶ ]”اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، انھیں اس سے زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔“ اللہ تعالیٰ نے یہاں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کا بھی ذکر فرمایا، کیونکہ ان کے ساتھ بھی چند لوگوں کے سوا بنی اسرائیل نے ایسا ہی سلوک کیا۔